ذکی حسین۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

04:34PM Thu 8 Jun, 2023

 اس کا چہرہ کتنا دمک رہا تھا، چہرے پر سیاہ سنت ڈاڑھی گویا نور برسا رہی تھی،  اس پر عجیب سی رونق چھا گئی تھی،  ۶/ جون کو جب سائے دراز ہورہے تھے، قصر حافظ میں مسہری پر رکھا ہوا اس کا جسد خاکی ایسے نظر آرہا تھا جیسے تھکے ماندے مسافر نے منزل مقصود پالی ہو،اور اب اسے آرام مل گیا ہو، دائمی آرام، جس کے لئے وہ مدت سے تڑپ رہا تھا، اور اب جو آنکھ لگی تو سامنے جنت کا پھاٹک اسے کھلتا ہوا   نظرآئے، جس میں فرشتے اس کے استقبال میں مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند کررہے ہوں۔ دنیائے فانی میں اسے دیکھنے والوں نے کہا کہ وہ دائمی سفر پر روانگی کے وقت ایسے ہی استقبال کا حقدار تھا، جب وہ یہاں سے روانہ ہوا تو دنیا کی آلائشوں سے  اس کا جسد خاکی پاک وصاف تھا، وہ زندگی بھر مختلف  تکلیفوں اور مشکلات میں گھرا رہا، لیکن کبھی اس کے لب سے شکوہ کا کوئی لفظ نہیں سنا گیا، اس کے قریبی دوستوں اور دن رات ساتھ گزارنے والوں کو بھی۔

ذکی حسین حافظ نے ایک روز پہلے وجے واڑہ کے ایک اسپتال میں اس دنیائے فانی کو الوداع کہا تھا، بہانہ تو حرکت قلب بند ہونے کا تھا، لیکن سات آٹھ ماہ سے کینسر کی ڈاکٹروں نے تشخیص کی تھی، اور بیماری کا آخری اسٹیج بتایا تھا، لیکن انسان امید پر جیتا ہے،اور وہ اپنے خالق کی ذات سے کبھی ناامید نہیں ہوتا، وہ بھی ایک مرد مومن تھا، بنانے والی ذات پر اسے پختہ یقین تھا ، اس کا ایمان تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، اگر قسمت میں زندگی کے کچھ دن باقی رہ گئے ہیں تو ان شاء اللہ اس مرض سے شفایابی ہوگی ، اور اگر مقررہ اجل آگئی ہے تو پھر کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی، خدا کی ذات سے راضی برضا رہنا ہی حقیقی بندگی ہے۔ چند روز قبل امید ہوچلی تھی کہ شاید شفایابی کے دن اب شروع ہورہے ہیں، چہرا بھی ہشاش بشاش ہونے لگا تھا، شاید یہ بجھتے چراغ کی آخری لو تھی جو بھڑک کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجاتی ہے، ذکی حسین بھی سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے۔

سامنے جسد خاکی آخری سفر کی طرف روانگی کے لئے رکھا ہوا تھا، ایک دراز قد جوان جس کا پورا جسم بیماری کے اس مرحلے میں مناسب غذا بدن میں نہ جانے کی تکلیفین جھیلتے جھیلتے اب چمڑی اور ہڈیویں کا ڈھانچہ بنے بے سدھ پڑا تھا، اور میرے سامنے چالیس سال سے زیادہ پرانا ۱۶ نومبر ۱۹۸۱ء کا ایک منظر گھوم رہا تھا۔

گھر میں شادی کا جشن تھا، خوشی کا  ایک منظر تھا، دلہن سکھی سہلیوں کے بیچ سولہ سنگھار کئے  تخت پر بیٹھی تھی، شادی کے گیت گائے جارہے تھے ، وہیں دلہن کی گود میں سب کے درمیان ایک ڈیڑھ سالہ ننھا منا بچہ اطمئنان سے بیٹھے  آنکھیں پھاڑے یہ سب منظر دیکھ رہا تھا، اس بچے کی موجودگی نے شادی کی خوشی اور مسرت کے جذبات کو دوبالا کردیا تھا، آخر مسرتوں کے آبشار کیوں نہ پھوٹتے،یہ نونہال دلہن کے سرپرست ماموں کی پہلی نرینہ اولاد تھی۔ اور دلہن کے حقیقی بھائی بہن نہ ہونے کی وجہ سے یہی ان کی قائم مقامی کررہا تھا۔  یہ بچہ سب کا لاڈلا ، اور آنکھوں کا تارہ تھا، خوش مزاجی اس وقت بھی اس کے روئیں روئیں سے پھوٹ رہی تھی، ایک ہنس مکھ، خوشیوں کو بانٹنے والا یہ بچہ آخری سانس تک اپنے اس وصف کو دامن سے تھامے رکھا، جب تک یہ زندہ رہا اس نے ہمیشہ دوسروں کی خوشی کا خیال رکھا، اس کی موجودگی نے ماحول کو کبھی افسردہ نہیں ہونے دیا، زندگی بھر اس کے والدین، اعزاء و اقارب، بیوی بچے، دوست اور ساتھی  سبھی اس سے راضی  رہے۔ اس نے انہیں خوش رکھنے کی شعوری طور پر کوششیں کی۔

 ہمیں وہ منظر بھی یاد ہیں جب ڈاکٹروں کی غلط تشخیص اور علاج سے اس کے ٹخنے کی ہڈی جو پیدائشی طور پر کچھ چوڑی تھی، اسے بیماری سمجھ کر اس کے حجم کو کم کرنے کے لئے لاتعداد دوائیں اس پر آزمائی گئیں، جس کا ہڈیوں پر منفی اثر پڑا، اس کے نتیجے میں اسے وقتا فوقتا درد کے دورے پڑا کرتے تھے، اور اس کی نیند اور آرام تلپٹ ہوجاتے تھے، اس حالت میں بھی اس کے منہ سے اف کی آواز نہیں نکلتی تھی،وہ  تنہا اسےرات کے اندھیروں میں اس طرح  برداشت کرتا تھا کہ ساتھ کے  پلنگ پر سوئے ہوئے فرد کو بھی اس کی سسکی سنائی نہیں دیتی تھی، وہ تنہا اسے برداشت کرتا تھا، یہ ایک دن کی بات نہیں تھی، بلکہ برسہا برس اس کا یہی انداز ساتھیوں نے دیکھا۔

وہ محمد حسین حافظ کے چھوٹے فرزند عبد الرحمن حافظ کی پہلی نرینہ اولاد تھی، ۱۹۸۰ء میں جب اس کی ولادت ہوئی تھی، تو اس کے تایا محمد قاسم حافظ ( میرے ماموں) نے بڑی دعائیں دی تھی،اور بڑی خوشی کا اظہار کیا تھا کہ ان کے والد کا نام آگے بڑھانے والے ایک فرد کا خاندان میں اضافہ ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نداء الاسلام مکہ مکرمہ سے حجازی قراءت کے نمائندہ قاری شیخ ذکی داغستانی کی تلاوتیں سن کر آپ کے بھٹکل میں بہت سے شائقین پیدا ہوگئے تھے، ان میں سے ایک محمد قاسم حافظ  بھی تھے، جو بینائی سے محروم تھے، لیکن خوش آواز تھے، اور قاری ذکی داغستانی کی تلاوت کے عاشق زار، انہوں نے ہی اپنے بھتیجے کا نام اپنے والد ماجد کے نام کے ساتھ نتھی کرکے  ذکی حسین تجویز کیا تھا۔

انسان کی زندگی میں ناموں کا بھی بڑا اثر ہوا کرتاہے، اللہ تعالی  نے اس بچے کو لحن داؤدی سے نوازا تھا، بچپن سے خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے اور نظمیں پڑھنے کا شوق تھا، ہمیں یادپڑتا ہے کہ دبی سے پہلی مرتبہ وطن آمد پر اس نونہال پر پہلی مرتبہ نظر پڑی تھی، لیکن جب دوسری مرتبہ آنا ہوا تو یہ بچہ کچھ بڑا ہوگیا تھا، اب اسے بولنا آگیا تھا، سنی ہوئی چیزیں اسے آسانی سے نوک زباں ہونے لگی تھیں، پہلے سفر میں ہم پڑوسی ملک سے بچوں کی نظموں کا ایک کیسٹ لائے تھے، اس میں سے ایک نظم اپنے وقت میں بڑی  مشہور ہوئی تھی۔جس کے بول تھے۔

مورنی او مورنی یہ بتلاؤ مورنی مور بیچارے سے تم نے کُٹی کیوں کرلی مور بیچارہ بھولا بھالا سیدھا سادھا پیارا پیارا اس نے بگاڑا تیرا کیا آخر یہ بتلا دے ذرا

اب اس بچے کو یہ نظم پوری یاد ہوگئی تھی، اور اپنی توتلی زبان میں سب جگہ چہچہاتے پھر رہا تھا، ہمیں بھی ایک مشغلہ مل گیا  تھاچھٹیوں میں دل بہلانے کا۔

اپنی طالب علمی کے دور میں اس نے نوائط کالونی مسجد میں شبینہ مدرسے میں قرآن سیکھا ، اور اس مدرسے کو متحرک رکھنے میں یہاں کے اساتذہ کا شریک رہا، اچھی آواز پائی تھی، قراءت اور تلاوت میں اگے آگے رہا، دین داری ، فرائض و سنن کی پابندی بچپن سے گٹھی میں پڑی تھی، دعوت وتبلیغ میں خوب وقت لگایا، اور لوگوں کی خدمت میں بھی دلچسپی دکھائی۔

گریجویشن کے بعد تلاش معاش میں دبی اور وجے واڑہ میں جدوجہد کرتا رہا، حلال وحرام کے فرق کو ہمیشہ سامنے رکھا، کبھی حرص اور لالچ کو قریب آنے نہیں دیا، اپنی سکت سے زیادہ محنت کی، ۲۰۰۸ء میں شادی کے بندھن سے بندھا، توفیق الہی سے ایک بااخلاق اور سلیقہ مند شریک حیات مرحمت ہوئی،پھر اللہ تعالی نے چار بچوں سے نوازا، جنہیں سن رشد کو پہنچنے سے قبل ہی  اب اپنے والد ماجد کی جدائی اور یتیمی کے غم کا سامنا ہے، اسی کی ذات ہے جو انسانوں کو تخلیق دیتی ہے، اور انہیں وقت مقررہ پر واپس بلا لیتی ہے، وہ اپنے اس نیک بندے کی اولاد کو بے سہارا نہیں چھوڑے گا،

مرحوم کوئی مشہور اور نامور  فردنہیں تھے، زندگی جس کی امانت تھی اسی کی طرف لوٹ گئی، ہمارے پاس اب درجات کی بلندی کے لئے اٹھتے والے ہاتھ ہی رہ گئے ہیں، یا پھر خوش گوار یادیں، ان شاء اللہ  زندگی کے ساتھ ساتھ یہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے اور پسماندگان کو اپنے ایک چہیتے اور عزیز کی جدائی پر صبر کرنے کا حوصلہ عطا کرے، اور متاثرین کو نعم البدل عطا کرے، وہی دانا اور حکیم ہے۔

2023-06-08