ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری کا حادثہ رحلت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:21PM Tue 2 Feb, 2021

ڈٓاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری کا حادثہ رحلت

تحریر: عبد المتین منیری

 

آج ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری صاحب کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر آئی ہے، آپ نے عمر عزیز کی اکاسی بہاریں اس دنیا میں گذاریں، اور اپنے شعور کی زندگی کو علم وتحقیق کے لئے وقف کیا تھا، آپ کی ولادت شاہجہاپور انڈیا میں ہوئی تھی، اور تعلیم مراد آباد کے مدرسہ قاسمیہ شاہی،  میں، فکری طور پر آپ کا میلان جمعیۃ علمائے ہند کی طرف تھا، اور ۱۹۵۰ میں پاکستان ہجرت کے بعد بھی آپ نے اس فکر سے ناطہ نہیں توڑا۔

آپ کی تحریر وتحقیق کا موضوع انگریزی استعمار کےد ور میں تقسیم ہند سے قبل تک برصغیر میں رونما ہونے والی ملی تحریکیں تھیں، اس موضوع پر چھوٹی بڑی ڈیڑھ سو کتابیں یادگار چھوڑیں۔ جس میں آپ نے کتب خانے کنگھالے، اور اخبارات و مجلات کی فائلیں کھول کھول کر ایسا قیمتی مواد اکٹھا کیا کہ ان موضوعات پر آئندہ لکھنے والا کوئی بھی مورخ ان سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔

آپ نے تقسیم ہند کے بعد کی تحریکات پر قلم اٹھانے سے احتراز کیا، اس میں شاید آپ کی کچھ مجبوریاں تھیں، اور اس کے لئے حکومتی دباؤ بھی تھا۔

آپ کے علمی کاموں میں زیادہ تر توجہ امام الھند مولانا ابو الکلام آزادؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ پر رہی، ایک معاندانہ ماحول میں بڑی ثابت قدمی اور جراءت کے ساتھ آپ نے ان شخصیات کا دفاع کیا ، اس میدان میں آغا شورش کاشمیری کو آپ پر سبقت رہی۔ شورش نے بھی اس سلسلے میں کوئی رورعایت نہیں کی، اور تیغ براں بن کر میدان میں نکلے۔ جب کوئی مصنف یا صحافی کسی شخصیت کے دفاع میں خود کو وقف کردیتا ہے تو یہ سمجھنا کہ اس سے جانب داری کا رویہ سرزد نہیں ہوگا، یا وہ ہمیشہ انصاف کا ترازو تھامے رہے گا، درست نہیں، اس میں افراط وتفریط سرزد ہوہی جاتی ہے۔ اب یہ حضرات بھی اس سے محفوظ نہ رہیں تو تعجب کی بات نہیں۔

تقسیم ہند کے بعد حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ تو منصب درس وتدریس و مشیخیت سے جم کر بیٹھ گئے، اور سیاسی تحریکات میں آپ کا عمل دخل بند ہوگیا، اور قال اللہ وقال الرسول کی مسندوں پر بیٹھے آپ کے شاگردان و مریدان باصفا نے اپنے مرشد ومقتدا پرآنچ آنے نہیں دی، لیکن مولانا آزاد یوں بھی عامۃ الناس سے کٹے ہوئے تھے، تقسیم ہند کے بعد جامع مسجد دہلی کے تاریخی خطاب  کے بعد عامۃ الناس نے آپ کو شاید ہی دیکھا ہو، وہ وزیر تعلیم کی حیثیت سے ڈرائنگ روم کی سیاست ہی کرتے رہے، اس پر مستزاد آپ  پر چھینٹے اڑانے والوں کی آپ نے اس ہاتھی کی طرح پرواہ نہیں کی جو مست گھومتا ہے،جیسے آس پاس چیختے چلاتے اوراس سے شرارت کرتے بچوں کو دیکھا ہی نہ ہو۔

مولانا آزاد بنیادی طور پر علامہ شبلی کے شاگرد تھے، علامہ کا جب انتقال ہوا تھا تو مولانا حمید الدین فراہیؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، اور مولانا آزادؒ کو آپ کی علمی وراثت منتقل ہوئی تھی، انتظامی حیثیت سے مولانا مسعود علی ندوی ان کے ساتھ لگ گئے، دارالمصنفین کے قیام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فراہیؒ اللہ کو پیارے ہوئے، اور یہاں یہ صورت حال پیش آئی  مختلف وجوہات سے علامہ کے علمی دو اہم وارثیں کا مولانا آزادؒ سے قلبی تعلق نہیں رہا تھا، اور پاکستان کے لکھاریوں کے لئے مولانا آزاد نرم چارہ بن گئے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ، اس پر مستزاد علامہ شبلی کی آڑ میں تحقیق کے نام پر بعض اہل قلم نے  مولانا آزاد کے بارے میں ایسی اوچھی باتیں لکھیں ، جنہیں سن کر شریف آدمی کو ابکائیاں آنے لگیں، علامہ سید سلیمان ندویؒ کا تو ہجرت کے بعد جلد انتقال ہوگیا تھا، لیکن ماہر القادری جیسے اہل قلم ،جن کا علامہ سے مخلصانہ تعلق تھا، چند ایسی باتیں ہاتھ لگیں، جس نے جلتی  پر تیل کا کام کیا،ڈاکٹر شاہجہانپوری نے اس ماحول میں مولانا آزاد کے دفاع کو اپنا مشن بنادیا، اسی پر چٹکی لیتے ہوئے مشفق خواجہ نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ کوئی مولانا آزاد کے خلاف ایک بات کرتا ہے، تو اس کے رد میں شاہجہانپوری صاحب کی کتابوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ اسی رد عمل میں مولانا دریابادیؒ وغیرہ کے خلاف آپ کی جو سخت تحریریں آئی ہیں انہیں بھی اسی زمرے میں شامل کرنا چاہئے۔

مولانا شاہجہانپوری کی تحریریں زیادہ تر کتابچوں کی شکل میں منتشر انداز سے شائع ہوتی رہیں، آج کا حال معلوم نہیں، لیکن تیس چالیس سال قبل ان کی اشاعت کا حلقہ محدود تھا،

 اور زیادہ تر اخبارات اور مجلات کی طرح دوبارہ قارئین کی دسترس سے یہ کتابیں باہر رہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی جملہ تحریروں کو یکجا کیا جائے، اور مکمل سیٹ کی صورت میں زیور طبع سے یہ آراستہ ہوں، کم از کم فی الحال انہیں اسکین کرکے کسی ایک ویب سائٹ پر محفوظ کیا جائے، ہمارے خیال میں علم وکتاب کے معزز رکن جناب محمد شبیر میواتی یہ کام بہتر انداز میں کر سکتے ہیں، یہ کام ان کے ذوق کا بھی ہے۔

ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری مرحوم کی وفات ایک عظیم علمی سانحہ ہے، ایسی شخصیات جب دنیا سے اٹھ جاتی ہیں تو ایک خلا چھوڑ جاتی ہیں، یہ خلا کیسے پرا ہوگا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/

 

آج ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری صاحب کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر آئی ہے، آپ نے عمر عزیز کی اکاسی بہاریں اس دنیا میں گذاریں، اور اپنے شعور کی زندگی کو علم وتحقیق کے لئے وقف کیا تھا، آپ کی ولادت شاہجہاپور انڈیا میں ہوئی تھی، اور تعلیم مراد آباد کے مدرسہ قاسمیہ شاہی،  میں، فکری طور پر آپ کا میلان جمعیۃ علمائے ہند کی طرف تھا، اور ۱۹۵۰ میں پاکستان ہجرت کے بعد بھی آپ نے اس فکر سے ناطہ نہیں توڑا۔

آپ کی تحریر وتحقیق کا موضوع انگریزی استعمار کےد ور میں تقسیم ہند سے قبل تک برصغیر میں رونما ہونے والی ملی تحریکیں تھیں، اس موضوع پر چھوٹی بڑی ڈیڑھ سو کتابیں یادگار چھوڑیں۔ جس میں آپ نے کتب خانے کنگھالے، اور اخبارات و مجلات کی فائلیں کھول کھول کر ایسا قیمتی مواد اکٹھا کیا کہ ان موضوعات پر آئندہ لکھنے والا کوئی بھی مورخ ان سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔

آپ نے تقسیم ہند کے بعد کی تحریکات پر قلم اٹھانے سے احتراز کیا، اس میں شاید آپ کی کچھ مجبوریاں تھیں، اور اس کے لئے حکومتی دباؤ بھی تھا۔

آپ کے علمی کاموں میں زیادہ تر توجہ امام الھند مولانا ابو الکلام آزادؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ پر رہی، ایک معاندانہ ماحول میں بڑی ثابت قدمی اور جراءت کے ساتھ آپ نے ان شخصیات کا دفاع کیا ، اس میدان میں آغا شورش کاشمیری کو آپ پر سبقت رہی۔ شورش نے بھی اس سلسلے میں کوئی رورعایت نہیں کی، اور تیغ براں بن کر میدان میں نکلے۔ جب کوئی مصنف یا صحافی کسی شخصیت کے دفاع میں خود کو وقف کردیتا ہے تو یہ سمجھنا کہ اس سے جانب داری کا رویہ سرزد نہیں ہوگا، یا وہ ہمیشہ انصاف کا ترازو تھامے رہے گا، درست نہیں، اس میں افراط وتفریط سرزد ہوہی جاتی ہے۔ اب یہ حضرات بھی اس سے محفوظ نہ رہیں تو تعجب کی بات نہیں۔

تقسیم ہند کے بعد حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ تو منصب درس وتدریس و مشیخیت سے جم کر بیٹھ گئے، اور سیاسی تحریکات میں آپ کا عمل دخل بند ہوگیا، اور قال اللہ وقال الرسول کی مسندوں پر بیٹھے آپ کے شاگردان و مریدان باصفا نے اپنے مرشد ومقتدا پرآنچ آنے نہیں دی، لیکن مولانا آزاد یوں بھی عامۃ الناس سے کٹے ہوئے تھے، تقسیم ہند کے بعد جامع مسجد دہلی کے تاریخی خطاب  کے بعد عامۃ الناس نے آپ کو شاید ہی دیکھا ہو، وہ وزیر تعلیم کی حیثیت سے ڈرائنگ روم کی سیاست ہی کرتے رہے، اس پر مستزاد آپ  پر چھینٹے اڑانے والوں کی آپ نے اس ہاتھی کی طرح پرواہ نہیں کی جو مست گھومتا ہے،جیسے آس پاس چیختے چلاتے اوراس سے شرارت کرتے بچوں کو دیکھا ہی نہ ہو۔

مولانا آزاد بنیادی طور پر علامہ شبلی کے شاگرد تھے، علامہ کا جب انتقال ہوا تھا تو مولانا حمید الدین فراہیؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، اور مولانا آزادؒ کو آپ کی علمی وراثت منتقل ہوئی تھی، انتظامی حیثیت سے مولانا مسعود علی ندوی ان کے ساتھ لگ گئے، دارالمصنفین کے قیام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فراہیؒ اللہ کو پیارے ہوئے، اور یہاں یہ صورت حال پیش آئی  مختلف وجوہات سے علامہ کے علمی دو اہم وارثیں کا مولانا آزادؒ سے قلبی تعلق نہیں رہا تھا، اور پاکستان کے لکھاریوں کے لئے مولانا آزاد نرم چارہ بن گئے، سیاسی اختلافات اپنی جگہ، اس پر مستزاد علامہ شبلی کی آڑ میں تحقیق کے نام پر بعض اہل قلم نے  مولانا آزاد کے بارے میں ایسی اوچھی باتیں لکھیں ، جنہیں سن کر شریف آدمی کو ابکائیاں آنے لگیں، علامہ سید سلیمان ندویؒ کا تو ہجرت کے بعد جلد انتقال ہوگیا تھا، لیکن ماہر القادری جیسے اہل قلم ،جن کا علامہ سے مخلصانہ تعلق تھا، چند ایسی باتیں ہاتھ لگیں، جس نے جلتی  پر تیل کا کام کیا،ڈاکٹر شاہجہانپوری نے اس ماحول میں مولانا آزاد کے دفاع کو اپنا مشن بنادیا، اسی پر چٹکی لیتے ہوئے مشفق خواجہ نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ کوئی مولانا آزاد کے خلاف ایک بات کرتا ہے، تو اس کے رد میں شاہجہانپوری صاحب کی کتابوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ اسی رد عمل میں مولانا دریابادیؒ وغیرہ کے خلاف آپ کی جو سخت تحریریں آئی ہیں انہیں بھی اسی زمرے میں شامل کرنا چاہئے۔

مولانا شاہجہانپوری کی تحریریں زیادہ تر کتابچوں کی شکل میں منتشر انداز سے شائع ہوتی رہیں، آج کا حال معلوم نہیں، لیکن تیس چالیس سال قبل ان کی اشاعت کا حلقہ محدود تھا،

 اور زیادہ تر اخبارات اور مجلات کی طرح دوبارہ قارئین کی دسترس سے یہ کتابیں باہر رہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی جملہ تحریروں کو یکجا کیا جائے، اور مکمل سیٹ کی صورت میں زیور طبع سے یہ آراستہ ہوں، کم از کم فی الحال انہیں اسکین کرکے کسی ایک ویب سائٹ پر محفوظ کیا جائے،

ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری مرحوم کی وفات ایک عظیم علمی سانحہ ہے، ایسی شخصیات جب دنیا سے اٹھ جاتی ہیں تو ایک خلا چھوڑ جاتی ہیں، یہ خلا کیسے پرا ہوگا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔