choot chat . by Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

02:01PM Sun 28 Jul, 2024

 گاندھی جی، اس سن وسال میں، اور ضعف وناتوانی کے باوجود، ۲۱دن کے فاقہ کا جو عظیم الشان مجاہدہ کررہے ہیں، اسے آپ نے دیکھا؟ اُن کی رائے اور روش صحیح ہو یا غلط، یہاں اس سے بحث نہیں، سوال صرف اُن کی عظیم الشان قربانی کا ہے۔ اس کے قبل بھی اسی سلسلہ میں وہ کیسے کیسے پاپڑ بیل چکے ہیں، کیا کچھ نہیں کرچکے، تحریر، تقریر، الحا، زاری، ساری ہی تدبیریں، آج سے نہیں، ایک مدت سے کرتے چلے آرہے ہیں، اوراب سب طرف سے ہارکر اور تھک کر بالآخر اپنی جان کو یوں ہلکان کرنا شروع کیاہے۔ اور پھر گاندھی جی تنہا بھی نہیں، ہندوقوم کے جتنے چوٹی کے لیڈر ہیں، تقریبًا سب ہی تو اُن کے ساتھ، اور اُن کمک پر ہیں، لفظًا بھی اور عملًا بھی، اور پھر جو مطالبہ ہے، وہ کسی غیر قوم سے نہیں، انگریزوں سے نہیں، خود اپنی ہی ہندو قوم سے ہے، ا س پر بھی آج یہ نوبت آگئی ہے ، اور کشورکار نہیں ہوتا!

اور وہ مطالبہ ہے کیا؟ صرف یہ کہ انسانوں کو انسان سمجھ لو! جن بیچاروں کا کوئی قصور بجز اس کے نہیں ہے، کہ وہ چمار یا پاسی یا لودھ یا کوری کے گھر پیدا ہوگئے ہیں، وہ ہندوبننا چاہتے ہیں، تو انھیں ہندو بنالو، وہ ہندووں کے دیوتاؤں کو پوجنا چاہتے ہیں، تو اُنھیں پوجنے دو، وہ ہندووں کی آسمانی کتاب (وید) کو پڑھنا چاہتے ہیں، تو اُنھیں پڑھنے دو، وہ ہندو مندروں کے اندر، ہندووں ہی کی طرح پوجا پاٹ کے لئے آنا چاہتے ہیں، تو اُن کے لئے دروازہ نہ بند کردو۔اُن کے جسم کو اتنا ناپاک نہ سمجھو، کہ اُس کے مَس ہوجانے سے تم بھی ناپاک ہوجاؤ گے، اور اُن کے ہاتھ لگ جانے سے، تمہارا کھانا، تمہارا پانی، تمہارا لباس، تمہارا جسم، سب گندہ اور ناپاک ہوجائے گا!……ہم کو آپ کو دیکھنے میں یہ مطالبہ کتنا سیدھا،کتنا صاف، کتنا سہل معلوم ہوتاہے، لیکن اسی مطالبہ کے خاطر گاندھی جی اپنی جان عزیز تک کے نثار کردینے پر آمادہ ہیں، اور بیسیوں ہندو لیڈر اپنا سر پٹخ رہے ہیں، زمین وآسمان ایک کئے دے رہے ہیں، پر ہندو قوم ہے کہ کسی کی ایک نہیں سنتی، حالانکہ اس قوم میں بڑے بڑے ’’عقلاء‘‘ بھی ہیں!

مسلمان کو، گئے گزرے ہوئے مسلمان، اِس بیسویں صدی کے نام کے مسلمان کو بھی یہ چیزیں کیسی عجیب وغریب معلوم ہورہی ہیں! تقریبًا سمجھ سے باہر! اسلام کی نعمت کی قدر کیا اب بھی نہ ہوگی؟ جو مسئلہ بڑے بڑے ہوشیاروں اور تجربہ کاروں، سیٹھوں اور ساہوکاروں ، پنڈتوں اور ودّیانوں ، فلسفیوں اور مہندسوں ، ریاضی دانوں اور منطقیوں کی سمجھ میں اتنی جدوجہد کے بعد بھی کسی طرح نہیں آتا ، وہ اسلام کی بدولت، محض ایک مسلمان کے گھر میں آنکھ کھولنے کی بدولت ، محض ایک کلمہ گو ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی بدولت، کس آسانی سے، کس سہولت سے، ہم میں سے بچہ بچہ کی سمجھ میں مدت ہوئی آچکاہے! ایک چھوت چھات ہی پر موقوف نہیں، طہارت، نماز، استقبال قبلہ، وضو، روزہ، طلاق، تعداد ازواج، پردۂ شرعی، وراثت، جہاد، غلامی، وغیرہ سارے کے سارے مسائل ایسے ہیں، جن کی حکمتوں کی گرد کو بھی دوسروں کے اکابر ومشاہیر نہیں پہونچ پاتے اور ہم کو بلادقت وزحمت، از خود وہ نعمتیں شروع سے حاصل ہیں! اگر اب بھی ہم ان نعمتوں کا کفران کرتے رہیں، تو ہم سے بڑھ کر بدنصیب ومحروم بخت اور کون ہوگا؟