بات سےبات : مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اردو کی چند کتابیں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Books Introduction

10:04PM Fri 25 Sep, 2020

ہماری خواہش تھی کے مشاجرات صحابہ کے موضوع پر مکمل خاموش رہیں۔ لیکن مسئلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، جب بھی مشاجرات صحابہ کا موضوع سامنے آتا ہے تو ہمیں بچپن میں اپنی والدہ سے سنی ہوئی ایک کہانی یاد آتی ہے کہ ایک بندر کے ہاتھ ایک روٹی آئی، تو اس نے سوچا کہ بارش کے دن ہیں، کچھ کھانے کو نہیں مل رہا ہے، کیوں نہ اسے بچا کر رکھا جائے، تو پھر اس نے روٹی کے دو ٹکڑے کئے، لیکن  یہ ٹکڑے اس کے ہاتھ سے مساوی طور پر تقسیم نہیں ہوسکے، تو اس نے انہیں برابر تقسیم کرنے کے ارادے سے بڑے ٹکڑے کا کچھ حصہ کھایا، اب ایک ٹکڑا بڑا اور دوسرا چھوٹا ہوگیا، دوبارہ اس نے بڑے ٹکڑے سے کچھ حصہ کھایا،اب دوسرا ٹکڑا اس سے بڑا ہوگیا، دونوں کو برابر کرنے کے چکر میں  اس نے دوسرے ٹکڑے سے مزید کچھ کھایا،  اس  برابری کی چکر میں  وہ پوری روٹی چٹ کرگیا۔

۱۹۵۹ء  سے  اس مسئلے نے برصغیر میں ایک نئی شکل لی ہے، ہوا یوں کہ  پاکستان میں جنرل ایوب خان کے عروج اور مقبولیت کا دور تھا، کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک وزیر باتدبیر پیر علی محمد راشدی مرحوم نے مشورہ دیا کہ انتخاب اور الیکشن کے جھنجھٹ سے ملک کو نجات دلائیں، اور اپنی بادشاہت کا اعلان کردیں، چونکہ دستور  پاکستان کے ساتھ اسلامی لاحقہ لگتا ہے، لہذا انہیں بادشاہت کے اسلامی طرز حکومت ثابت کرنے کے لئے اسلام کی سند لانے کی ضرورت پیش آئی، جسے امروہہ کے ایک مہاجرو تاریخ داں حکیم محمود احمد عباسی مرحوم نے ایک کتاب خلافت ومعاویۃ ویزید لکھ کر پورا کیا، اس کتاب میں مصنف نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ باغی ہیں، اور یزید بن معاویہ خلیفہ بر حق، لہذا نظام بادشاہت اسلامی نظام حکومت کا دوسرا نام ہے،  اس کتاب کو وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا، اس جرات تحقیق پر  عوام اور دانشوروں میں بے چینی پیدا ہوئی،  بات کورٹ تک جا پہنچی، اور کورٹ نے  اس پر پابندی لگانے سے معذرت کردی، جیسا کہ مولوی عبد الحق بابائے اردو کے پیش لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان کا تو ہمیں علم نہیں، ہندوستان میں اہل حدیث کے حلقے میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی،اور انہوں نے اس کتاب کے فروغ میں بھرپور حصہ لیا، ہندوستانی ایڈیشن پر  مولانا عبد الوہاب آروی صدر جمعیت اہل حدیث کی تقریظ ہمیں یاد پڑتی ہے۔ اور علی الاعلان تقاریر وغیرہ میں یزید بن معاویہ کو رحمۃ اللہ علیہ کہا جانے لگا، اس طرح برصغیر میں ناصبیت جدیدہ کی داغ بیل پڑی۔

 عباسی صاحب کی تائید میں اس وقت جو مجلات آئے ان  میں تجلی دیوبند  تائید میں اور   فاران  کراچی مخالفت میں سر  فہرست رہا، ان مجلات کے مدیران مولانا عامر عثمانی اور ماہر القادری کے درمیان  اتحاد فکری کے باوجود یہ اختلاف  باہمی منافرت اور دوری تک پہنچ گیا، علامہ تمنا عمادی نے بھی عباسی صاحب کی تائید میں خوب لکھا، مشہور تو یہی ہے کہ اس کتاب کا اصل مواد عمادی صاحب تیار کردہ  ہے، اور یہ بعید از قیاس نہیں معلوم ہوتا ہے۔

عباسی صاحب نے اپنی کتاب کی تائید میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ  ((تحقیق مزید بسلسلہ خلافت معاویہ ویزید ))کے عنوان سے  شائع کیا جو اصل کتاب سے زیادہ ضخیم ہے۔

عباسی صاحب کے جواب میں کئی ایک کتابیں منظر عام پر آئیں،ان میں سے چند یہ ہیں۔

۱۔ شہید کربلا اور یزید۔ از: حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند۔

۲۔ علی وحسین رضی اللہ عنہ۔ از: مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ؒ۔ مدیر البلاغ بمبئی و رفیق ندوۃ المصنفین دہلی

۳۔ خلافت وملوکیت۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ

۳۔ یزید کی شخصیت۔ از: مولانا عبد الرشید نعمانی ۔ محدث کبیر

حضرت حکیم الاسلام ؒ کی کتاب پر تنقید کرتے ہوئے محد ث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نے ((تبصرہ بر شہید کربلا ویزید)) لکھی۔مولانا اعظمی کی کتاب کا جواب مولانا سید طاہر حسین گیاوی صاحب  نے((شہید کربلا اور کردار یزید)) کے عنوان سے ایک کتاب  میں دیا۔

۔  اپنے ردود کی وجہ سے خلافت وملوکیت کو  ان کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت ملی، یہ کتاب دو دھاری تلوار ثابت ہوئی، جہاں اس سے لوگ مصنف سے دور ہوئے، وہیں یہ کتاب کئی ایک دانشوروں کو مصنف سے قریب کرنے کا سبب بھی بنی۔ لیکن اجمالی طور پر ہمارے خیال میں مصنف کی ساکھ کو اس کتاب سے نقصان زیادہ پہنچا۔خلافت وملوکیت کے رد میں جو کتابیں لکھی گئی ان میں مندرجہ ذیل کتابیں مشہور ہیں۔

۱۔ تجدید سبائیت۔ از: مولانا محمد اسحاق سندیلوی ؒ سابق شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو۔اس کتاب کا (حصہ اول ) ہنامہ نظام کانپور کے خاص نمبر کی حیثیت سے ۱۹۶۷ ء میں شائع ہوا تھا، اس پرچے کی مجلس ادارت میں مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ اور مولانا حکیم عبد الرشید محمود گنگوہی (ننھو میاں) مولانا عبد القدوس رومی جیسی شخصیات  شامل تھیں۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد ۱۹۷۰ میں مولانا سندیلوی ؒ نے پاکستان ہجرت کی ،جہاں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی بڑی قدر ومنزلت کی ، یہاں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون میں آپ کو شعبہ دعوت وارشاد کا صدر مقرر کیا گیا، آپ مولانا بنوریؒ کے قائم کردہ مجلس دعوت وتحقیق کے رکن بھی رہے،  ایک انٹرویو  میں مولانا بنوریؒ  نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے( خدام الدین ، شمارہ ۲۳ ۔ اگسٹ ۱۹۷۴ء)۔ مولانا سندیلوی نے پاکستان میں تجدید سبائیت کے مزید اجزا مرتب کئے جو ((اظہار حقیقت)) کے عنوان سے تین جلدوں میں شائع ہوئے۔

۲۔ شواہد تقدس۔۔۔ از: مولانا سید محمد میاں رحمۃ اللہ علیہ۔ سابق صدر جمعیۃ علمائے ہند۔

۳۔ حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق۔۔۔ از: مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب

۴۔ خلافت وملوکیت ۔۔۔ تاریخی وشرعی حقائق۔۔۔ از : مولانا محمد صلاح الدین یوسف۔ مدیر الاعتصام لاہور

مولانا سندیلوی کی کتاب تجدید سبائیت یا اظہار حقیقت کے رد میں (( مولانا محمد اسحاق سندیلوی اور خارجی فتنہ)) کے عنوان سے مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے تین جلدوں میں  رد لکھا۔

۔ مولانا سید محمد میاں رحمۃ اللہ علیہ کی شواہد تقدس کے رد میں مولانا عامر عثمانی صاحب نے ماہنامہ تجلی دیوبند کے ((خلافت وملوکیت نمبر)) کے  دو ضخیم خصوصی شمارے نکالے۔  ضمیمہ میں آپ نے تجدید سبائیت کا رد بھی شامل کیا۔

۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق کے جواب میں جناب ملک غلام علی صاحب معاون مدیر ترجمان القرآن لاہور نے سلسلہ وار مضامین لکھے جو(( خلافت وملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ)) کے عنوان سے  ۵۵۰ صفحات پر مشتمل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خلافت معاویہ ویزید کے اس معرکہ کے کافی عرصہ بعد مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب مدیر مجلہ الفرقان لکھنو  کی کتاب(( واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر)) شائع ہوئی، جس کے رد میں مولانا قاضی مظہر حسین ؒ کی کتاب(( واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر پر ناقدانہ جائزہ ))  آئی، اور ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی سابق معتمد تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنو نے تعمیر حیات میں(( واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر ))کے عنوان سے سخت تبصرہ لکھا۔ جس کے بعد کافی تلخیاں بھی ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافی عرصہ بعد حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب المرتضی آئی، نام سے ظاہر ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت پر ہے،   حضرت مولانا  قلم کے احتیاط میں ایک نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں، باوجود اس کے

حضرت مولانا زین العابدین  المعروفی الاعظمی شیخ الحدیث مظہر العلوم بنارس نے  اس کے رد میں(( کتاب المرتضی کا علمی احتساب ))  نامی کتابچہ لکھا۔

 ان کتابوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مشاجرات صحابہ پر کچھ لکھنا  یا بولنا  تلوار کی دھار پر چلنے کے برابر ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ اس موضوع پر اپنی زبان بند کرنے ہی میں عافیت سمجھی جائے، آپ کہیں گے صرف زبان بندی کا کیا فائدہ، یہ تو حقیقت سے منہ چھپانا ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صحابۃ الرسول ﷺ میں، اب جب ان کے اور ہمارے خالق نے کہ دیا کہ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ، تو اس پر ہمارا کچھ بولنا مقام عبدیت کے خلاف ہے، ہمار ا کام آمنا وصدقنا کہنا ہے۔

سنہ ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں ہمارے شعبہ  کے سربراہ  ایک عراقی  عالم دین تھے ، ان کی کتاب (( دفاع عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ))  اپنے موضوع پر معرکۃ آراء  کتاب  سمجھی جاتی ہے، انہوں نے ااس وقت  ہمیں نصیحت کی تھی کہ عبد المتین، علمی حقائق جاننے کے لئے اپنی تگ دو اور مطالعہ جاری رکھیں، لیکن اپنی رائے کے اظہار میں جلد بازی نہ کریں، ممکن ہے کوئی ایسا نیا نکتہ مل جائے جو آپ کی رائے کو بدل نے پر مجبور کردے۔ الحمد للہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام ومرتبہ کے بارے میں ہمارا اعتقاد وہی ہے جو ہمارے اسلاف کا رہا ہے،  صحابہ رضوان اللہ علیہم کے بارے میں اصولی اعتقادی موقف اختیار کیا جائے یہی دین کا تقاضا ہے، جہاں ان میں سے کسی کی بھی شان میں سب و طعن نظر آئے واضح طور پر اظہار براءت کیجئے، اس موضوع  کے تعلق سے  ہمارے اکابر کے بارے  میں  خوش گمان رہئے، کسی بات سے متاثر ہوکر فورا ان پر سے اعتماد ختم نہ کیجئے ،لیکن پارٹی بن کر ایک دوسرے کے دفاع میں  حدود سے متجاوز  بھی نہ ہوں، کیونکہ اس مسئلہ میں جس نے بھی ہاتھ ڈالا اس کی انگلیاں جلنا  لازمی ہے، اور فرمان خداوندی (( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )) کو رہنما بنا کر اپنی آخرت کی فکر کریں۔۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ تاریخ کے اس حساس موضوع  پر عرب یونیورسٹیوں میں موضوعاتی تحقیقی کام ہواہے، ان   ان پر کبھی آئندہ گفتگو ہوگی ، ان شاء اللہ۔

2020-09-25

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/