بات سے بات۔۔۔ سیرت النبی کا عربی ترجمہ۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

07:32PM Thu 14 Jul, 2022

ہمیں یاد پڑتا ہے کہ (  محمد اقبال  والثقافۃ الاسلامیہ فی الھند)  میں استاد محمد حسن الاعظمی نے علامہ شبلی کے سیرۃ النبی ﷺ کے دیباچے کے مقدمہ کا عربی ترجمہ پیش کیا تھا، اور یہ اب تک کے ترجموں میں سب سے معیاری تھا، محمد حسن الاعظمی بوہرہ فاطمی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے، جامعہ ازہر کے فارغ تھے، اور ایک طویل عرصہ تک مصر میں ادیبوں اور اہل فکر کے درمیان  گذاراتھا، الرسالۃ ، الثقافۃ جیسے مصر کے موقر مجلات میں ان کے مضامین نکلتے تھے۔عبد الوہاب عزام ( مترجم علامہ اقبال) جیسی شخصیات آپ کی قریبی دوست تھیں، آپ کے حالات زندگی پر ہمارے گروپ ممبر محمد راشد شیخ صاحب نے ایک اچھا کالم لکھا ہے، ارکائیو میں مل جائے توان شاء اللہ اسے پوسٹ کرنے کی کوشش ہوگی۔

برصغیر میں جو لوگ  عربی زبان میں لکھتے ہیں، اور یہاں کے مجلات میں شائع ہوتے ہیں ،ہم ان  کے ساتھ ادیب عظیم  جیسے القاب استعمال کرنے لگتے ہیں اور ان کی تعریف کے قلابے ملانے لگتے ہیں، ہمیں اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ جن کے لئے یہ لکھے جاتے ہیں، ان کے تاثرات کیا ہیں، ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جن موضوعات پر انہوں نے لکھا ہے، وہ کتنے گھسے پٹے ہیں، یا عرب قارئین میں اس کی رسائی کہاں تک ہے۔ بس ہمارے یہاں عربی میں لکھنا اور کثرت سے لکھنا معیار بن گیا ہے۔

لیکن گزشتہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ ایک عرب ملک کی علمی وکتابی ماحول دنیا میں رہ کر اور مختلف اہل فکر اور مصنفین سے تبادلہ خیال کرکے  ہماری سمجھ میں تو یہی آیا ہے علامہ عبد العزیز میمنؒ،  مولانا سید ابو الحسن ندویؒ، مولانا مسعود عالم ندویؒ ، اور استاد محمد حسن الاعظمی  نے اہل زبان کی اہل زبان سے اپنی عربی دانی کا لوہا منوایا ہے، اورانہوں نے اپنی تحریروں سے  عالم عرب کے علمی و ادبی حلقوں میں جو اثر ڈالا ہے، اس کی مثالیں شاذ ونادر ہیں ، مولانا محمد یوسف بنوری کو بھی اہل زبان کی طرح عربی زبان پر بڑا ملکہ حاصل تھا، لیکن ان کی حیثیت فکری اور ادبی سے زیادہ علمی ودینی ہے، اور ان کی مضامین کی تعداد بھی محدود ہے۔ 

ان شخصیات میں محمد حسن الاعظمی کو کئی ایک امتیازات حاصل ہیں،ان کا علامہ عبد العزیز میمن کی طرح بیسویں صدی کے نصف اول کے ممتاز اہل قلم سے تعارف تھا، علامہ اقبال کے کلام کو عرب کے  بچے بچے کی زبان پر  پھیلانے کا سہرا بھی انہی کو جاتا ہے، محمد حسن الاعظمی نے اقبال کی مشہور نظموں شکوی جواب شکوہ، چین وعرب ہمارا، اور فاطمہ طرابلسیہ کا عربی نثر میں ترجمہ کیا، اور مصری ریڈیو کے مشہور نابینا شاعر محمد صاوی شعلان نے انہیں شعر میں ڈھالا،آپ کا ترجمہ   کردہ ترانہ

( الصين لنا والعُرب لنا والهند لنا والكل لنا , أضحى الإسلام لنا ديناً , وجميع الكون لنا وطنا)

تو ایک زمانے میں گھر گھر میں بچے بچے کی زبان پر تھا،اور اب بھی انٹرنٹ وغیرہ پر کئی ایک خوبصورت آوازوں میں دستیاب ہے۔ 

 شکوی اور جواب شکوہ کو ام کلثوم نے آواز دی تھی،  اوریہ کافی عرصہ تک حدیث الروح کے عنوان سے دنیا ئے عرب کے تما م ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہوا کرتا تھا، ایک زمانہ تھا کہ ہر جمعہ کی دوپہر ایک بجے سے دوبجے تک  دبی ریڈیو سے جس طرح ہمارے یہاں دینی نغمے سمجھ کر قوالیاں نشر ہوا کرتی تھیں، کچھ  اسی طرح شوقی کی ولد الھدی یا اقبال کا شکوی جواب شکوی باری باری ریسٹورنٹوں اور پبلک مقامات سے گذرتے ہوئے کانوں میں پڑتی تھیں۔

 ام کلثوم کی خواہش تھی کہ اسی طرح فاطمہ الطرابلسیہ کو بھی پیش کرے، لیکن آپ کی عمر نے وفا نہ کی۔ عبد الوہاب عزام اور دوسرے کئی شعراء نے علامہ اقبال کے اشعار کو عربی شعر میں ضرور  پیش کیا ہے، لیکن محمد حسن الاعظمی اور محمد صاوی شعلان کے ترجموں کو جو قبول عام نصیب ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔   

چند سال سے علامہ شبلی کی سیرۃ النبی ﷺ، الفاروق اور کئی ایک اردو کتابوں کے ترجمے عربی زبان میں شائع ہوئے ہیں،اور یہ مصری مترجمیں کے قلم سے ہیں، ہمارے خیال میں مصریوں کے ترجموں کا عموما معیار بلند نہیں ہوا کرتا، اور اردو کے ان قابل افتخار کارناموں کے ترجموں میں تاخیر بھی بہت ہوگئی ہے۔ اپنے وقت میں عربی میں  ترجمے کا یہ  کام ہوتا تو جس طرح  ہندوستان علماء  کی شروح حدیث وغیرہ کی اشاعت سے یہاں کے علماء کی ناموری میںؓ جو اضافہ ہوا، اور انہیں ایک تشخص ملاہے، اسی طرح دوسرے علمی وادبی حلقوں میں ہندوستانی اہل علم کے تعارف کا دائرہ کار بہت وسیع ہوسکتا تھا، بہت پہلے الجزائر میں مقیم استاد مولانا محمد اسماعیل ندوی مرحوم نے سیرۃ النبی کی دو جلدوں کا ترجمہ مکمل کیا تھا، لیکن وہ کبھی شائع نہ ہوسکیں۔

علامہ شبلی کی سیرۃ النبی ﷺ اپنے دور میں ایک تجدیدی علمی کارنامہ کی حیثیت رکھتی ہے، آج سے ایک صدی بیشتر جب کے مصنف کی دسترس میں  مطلوبہ وسائل اور مراجع دستیاب نہ ہونے کے باوجود آپ نے سیرت نگاری میں کتب سیرت سے زیادہ کتب حدیث کو اساس بنانے کی فکر پیش کی تھی، اگر اس زمانے میں عرب محققین اور مصنفین اس سے واقف ہوتے، تواس سے یہاں کے مصنفین کی نیک نامی او ناموری اور شہرت کا دائرہ کار بہت وسیع ہوسکتا تھا، ہمارے محدود مطالعہ میں 1980 کی دہائی سے قبل اردو زبان کوئی پچاس ساٹھ سال کےعرصہ تک اپنی دینی فکری تاریخی اور علمی سرمایہ میں عربی زبان پر بھی فائق رہی،  لیکن سعودی عرب وغیرہ کی جامعات میں اپنے دور کے جید محققین کے زیر سرپرستی ماجستیر اور دکتوراہ کے مقالات کی تیاری کے بعد اردو زبان کی وہ فوقیت باقی نہیں رہی۔ اس زریں دور کو واپس لانے کے لئے جی جان سے کوششوں کی ضرورت ہے، اور یہ بڑے  پتہ ماری کا کام ہے۔

2022-07-14