بات سے بات: رواس قلعہ کے فقہی موسوعات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

03:14PM Sun 13 Sep, 2020

 ۔1960ء کی دہائی میں جب اسلامی فقہی انسائیکلوپیڈیا کی ڈول ڈالی گئی تھی تو یہ بڑی بھاری نکلی، راستے ہی میں اسے کھینچنے والوں کے دم ٹوٹ گئے، مصر میں موسوعۃ جمال عبد الناصر للفقہ الاسلامی حرف الف سے آگے نہ بڑھ سکا۔ حالانکہ اس کی غالبا سترہ جلدیں نکل چکی تھیں، پھر سوریۃ میں منظم طور پر اس کا آغاز کیا گیا، تو کام کی وسعت کو دیکھتے ہوئے ایک خطہ بنایا گیا کہ پہلے اہم مراجع کی بنیاد پر مستقل سلف کی شخصیات کی فقہی آراء کو اکٹھا کیا جائے، جب یہ کام مکمل ہو جائے تو پھر اس کی بنیاد پر موسوعۃ فقہیہ مرتب کیا جائے، اس صورت میں مکمل موسوعۃ کی تمہید کے طور پر جو بھی کام ہوگا، اپنے طور پر مکمل ہوگا، پھر سوریہ کے مسلسل انقلابات کے بعد اس پروجکٹ کو سوچنے والوں کی جانوں کے لالے پڑگئے، اور یہ پروجکٹ بھی ٹھپ پڑگیا، اس زمانے میں ابن حزم کی المحلی کا معجم الفقہ الظاہری کے نام سے، اور معجم فقہ السلف کے عنوان سے المجموع اور الاشراف لابن المنذر عبادات کا اشاریہ منظر عام پر آیا، بعد میں جب یہ پروجکٹ کویت کی وزارت اوقاف نے اپنا لیا تو اسی نقشے پر کام کا دوبارہ آغاز ہوا اور ابن قدامہ کی المغنی کا مفصل اشاریہ معجم الفقہ الحنبلی کے نام سے مرتب ہوا، اور پھر کویت سے شامی کی رد المحتار، ابن الہمام کی فتح القدیر اور سبکی کی جمع الجوامع  اور کئی ایک اہم کتابوں کے اشارئے شائع ہوئے، اور اس کا اختتام بالخیر الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ پر ہوا۔

اسی زمانے میں ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے غالبا  مستقل طور پر موسوعہ کو بنیاد  فراہم کرنے کے لئے مشہور فقہائے صحابہ ، تابعین وغیرہ کے مستقل موسوعات فقہیہ مرتب کئے، غٓالبا وہ ذاتی طور پر کوئی موسوعہ ترتیب دینا چاہتے تھے، رواس قلعجی کے اس سلسلے کی اپنے زمانے میں تھوڑی بہت اہمیت رہی ہوگی، لیکن ہماری ناقص رائے میں آج جب کہ موسوعۃ کویتیہ مکمل ہوکر اپنی روشنی پھیلا رہا ہے، تو پھر اس سلسلے کی اہمیت ختم ہوگئی ہے، لیکن شامی اور کویتی  موسوعۃ فقہیہ کی تیاری کے لئے جن فقہی کتابوں کے اشارئے تیار کئے گئے تھے ان کی اہمیت اور قدر قیمت اب بھی باقی ہے،کیونکہ رواس قلعہ جی کے سلسلے ثٓانوی اہمیت رکھتے ہیں، لیکن یہ کتابیں جن کے اشارئے تیار کئے گئے تھے ان کی حیثیت بنیادی ہے، ان اشاریوں سے ان کتابوں کو سمجھنا اور ان کی گہرائی تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ ہماری رائے میں فقہ کے ایک طالب علم کو المغنی المحلی ، فتح القدیر اور رد المحتار کے اشاریوں سے وقتا فوقتا مراجعت کرتی رہنی چاہئے۔  رواس قلعجی کتابوں میں معجم لغۃ الفقہاء کی اہمیت ختم نہیں ہوئی، اپنے موضوع پر اب بھی یہ اہم ترین مرجع ہے، انگریزی زبان کی قانونی اصطلاحات کے موازنے کے لئے اس کی افادیت اب بھی باقی ہے۔

عبد المتین منیری

‏13‏/09‏/2020

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/