بات سے بات: اردو تحریر اور ناولوں کا مطالعہ۔۔۔ از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

01:25PM Sat 28 Nov, 2020

ایک معزز گروپ ممبر نے جن کا تعلق سوات سے ہے  دریافت کیا ہے کہ ان کے ایک دوست جو کہ ماشاء اللہ فارغ التحصیل اور فتوی نویسی سے وابستہ ہیں،انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ((انہیں سلیس اردو میں استفتاء کے جوابات دینے میں بڑی دشواری پیش آتی  ہے، النخیل کے مطالعہ نمبر دیکھ کر انہیں محسوس ہوا کہ ان کی اردو بہت کمزور ہے، اس نمبر کے زیادہ ترمقالہ نگاروں نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ نسیم حجازی کے ناول وغیرہ پڑھنے سے انہیں اردو زبان آئی، تو کیا میں چند دنوں کے لئے ان سب موٹی موٹی کتابوں کو چھوڑ کر خود کو یہ ناولیں پڑھنے کے لئے وقف کردوں؟))۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معزز ممبران جو درس وتدریس اور افتاء سے بھی وابستہ ہیں، وہ اپنے تجربات کی روشنی میں اس پر ضرور اظہار خیال کریں، اس سلسلے میں یہ ناچیز بھی کچھ عرض کرے تو شاید کچھ حرج نہیں۔

تفقہ فی الدین اصل ہے، اور اس کا حصول افضل ہے، فقہ دین کا مقصد اس کے نتائج کو دنیائے انسانیت تک پہنچانا ہے، حلال وحرام کے بارے میں انہیں بتانا ہے، یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ کو زبان وبیان پر قدرت نہ ہو،(( وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ)) سے قرآن کا مقصود یہی ہے، جب عالم دین پر منصب نبوت ذمہ داریاں پڑتی ہیں، تو اسے اپنے معاشرے کو متاثر کرنے والے زبان  واسلوب پر قدرت لازمی ہوجاتی ہے، لہذا زبان جو کہ مقصد نہیں بلکہ وسیلہ ہے اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے، باوجود اس کے مقصد کی فوقیت ہمیشہ باقی رہتی ہے، اس لئے مقصد کے ساتھ ساتھ وسیلے کو بھی اپنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جانی چاہئے، ورنہ مقصد فوت ہوجائے گا۔ قدیم علمی ورثہ کو چھوڑ کر نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ زبان وادب پر بھی قدرت حاصل کرنے ہی میں عافیت ہے۔

مخاطب کے لحاظ سے اسلوب زبان بدلتا رہتا ہے،جس طرح ہر علم کو بیان کرنے کے لئے اپنے الفاظ اور اسلوب ہوتے ہیں، اسی طرح فتاوی کے اپنےزبان  و اسلوب ہوتے ہے، یہ اور بات ہے کہ انہیں عام فہم اور آسان بنانے کی ضرورت ہے، اور اس کے لئے ایسی عبارتوں  کے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جن سے عبارت کا ایک ہی معنی و مفہوم لیا جائے۔

اللہ مغفرت کرے ہمارے ایک دوست تھے، مولانا محمد اسحاق مدنی مرحوم۔ پاکستان سے تعلق تھا، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ (( پٹھان کا علم اگر من بھر ہو تو اس کی  شہرت چھٹانگ بھر ہوتی ہے، اور ہندوستانی عالم کا چھٹانگ بھر ہو تو شہرت من بھر))، ان  کے کہنے کا مقصود یہ تھا، کہ افغان علاقوں میں بڑی محنت سے پڑھایا جاتا ہے،اور ان کا علم بھی بہت ہوتا ہے، لیکن یہ اتنی مشکل زبان و اسلوب کے عادی ہوتے ہیں کہ ان کی باتوں کو لوگ سمجھ نہیں پاتے، تصنیف و تالیف کا بھی انہیں زیادہ تر ذوق نہیں ہوتا، بس ان کی پوری دنیا مدرسوں میں تدریس ہوتی ہے، ان کے بہ نسبت ہندوستانی عالم کے پاس آسان زبان ہوتی ہے، جس میں وہ بولتا بھی ہے، لکھتا بھی ہے۔

ناول پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ قاری تیز رفتاری سے کتابیں پڑھنے کا عادی بن جاتا ہے، مطالعہ کا ذوق اور کتابوں سے تعلق پیدا کرنے کے لئے، سست روی اور ٹہر ٹہر کر کتابیں پڑھنے سے زیادہ اہمیت تیز روی کی ہے، ٹہر ٹہر کر پڑھنے کا تعلق فہم اور کسب علم سے ہوسکتا ہے، لیکن اس سے وسیع مطالعہ کا ذوق کم پی پروان چڑھتا ہے۔

اہمیت دونوں طریقوں کی ہے، جو تیررفتاری سے کتابیں پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں ، ان کے لئے کتاب کھانے پینے جیسی ہوتی ہے، وہ بغیر مطالعہ کے خالی نہیں بیٹھ سکتے۔

ناول پڑھنے کی ایک عمر ہوتی ہے، جو سن بلوغت  سے کوئی بیس پچیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے عموما ختم ہوجاتی ہے، ناول میں ایک جستجو ہوتی ہے، اور اب کیا ہوگا کی فکر لگی رہتی ہے،اس فکر میں قاری بھوک پیاس اور نیند بھی بھلا دیتا ہے، اس عمر میں یہ دور ہم پر بھی گذرا ہے، صدیق لائبریری، انجمن آرٹس کالج لائبریری بھٹکل، مہاتما گاندھی میموریل لائبریری چرچ گیٹ، ممبئی، جمالیہ کالج لائبریری مدراس، میں اردو اور عربی ناولوں کے ذخیرے کو ہم نے اس عمر میں چاٹ ڈالا تھا، یہ پڑھنا دراصل مطالعہ نہیں ہوتا، بلکہ آنکھوں کا تھکانا ہوتا ہے، کیونکہ ارتکاز نہ ہونے کی وجہ سے چیزیں شعور میں محفوظ نہیں رہتیں، مطالعہ کیسا ہوتا ہے، یہ ہم نے یہ دور ختم ہونے کے بعد جانا۔ آج اس دور کو یاد کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے، اس دوران ہم نے فیاض علی ایڈوکیٹ کے شمیم اور انور، نسیم حجازی کے معظم علی،اور تلوار ٹوٹ گئی،قیصر وکسری ، سالار حجاز،خاک وخون۔ اے آر خاتون کے شمع افشاں، رئیس احمد جعفری کے یزید، یم اسلم کے رقص ابلیس جیسے ناولوں کو جو چار پانچ سو صفحات سے کیا کم ہونگے، ایک دور روز میں ختم کیا تھا،آج کی نسل مٹی کے تیل سے جلنے والے دئے کو نہیں جانتی، اس زمانے میں روئی کی بتی ہوتی تھی مٹی کے تیل سے روشن ہوتی تھی، بجلی جو کہ عموما غائب رہتی تھی، تو رات رات بھر اس بتی کی مدھم روشنی میں یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں،اس پر چالیس سال گذررہے ہیں، اسکے بعد پڑھنے کے شوق اور بڑے چاؤ سے بانو قدسیہ کا راجہ گدھ، شوکت صدیقی کی خدا کی بستی، عبد اللہ حسین کی اداس نسلیں، قرۃ العین حیدر کی آگ کا دریا، انیس اشفاق کا خواب سراب، وغیرہ نہ جانے کون کون سے ناول شہرت سن کر منگوایے، ابھی ابھی شمس الرحمن فاروقی کا کتنے چاند تھے سر آسمان کا نیا پاکستانی ایڈیشن بھی منگوایا ہے،  لیکن ان میں سے کوئی بھی ناول دو چار صفحات سے زیادہ پڑھے نہ جاسکے، نہ انہیں پڑھ سکنے کی امید ہے۔

نسیم حجازی کی بات آگئی ہے تو ہمارے مشفق مولانا اعجاز الدین فاروقی مفتاحی مرحوم کی بات یاد آگئی، مرحوم پہلے انجمن اسکول میں دینیات ٹیچر تھے، پھر بنگلور چلے گئے، اور وہاں پر حضرت مولانا مسیح اللہ خان شروانی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ایک ادارہ قائم کرنے میں شریک رہے، وہ ہمارے ہاتھوں میں نسیم حجازی کے ناول دیکھتے تو کہتے یہ کیا پڑھ رہے ہو!(( ان میں مسلمانوں کے زوال کی داستانیں ہیں، جو صرف رلاتی ہیں،مسلمانوں کو ہمت اور حوصلہ کی ضرورت ہے،یہ روز کا رونا دھونا کیسا؟ مسلمانوںکی عظمت اور عروج کی داستانیں پڑھئے)) یہ بھی سوچنے کا ایک انداز ہے، لیکن اس میں شک نہیں، نہیں اسلامی تاریخ کے موضوعات پر صادق حسین سردھنوی، یم اسلم، الیاس سیتاپوری وغیرہ جنہوں نے بھی لکھا ہے ان میں نسیم حجازی کا اسلوب  سب سے اعلی وارفع ہے ، صحیح معنوں میں وہ اسلامی ادیب ہیں، عنایت اللہ التمش نے بھی حکایت ڈائجسٹ اسی مقصد سے شروع کیا تھا، ان کی تحریروں کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ جب ان کی تحریریں عام ہورہی تھیں،تواس وقت ہم نے ناول پڑھنا چھوڑدیا تھا، شرر پر ہم پہلے تبصرہ کرچکے ہیں، آج کےد ور میں جب کہ موبائل نے بچوں کو کتاب سے دور کردیا ہے، تو بہر حال یہ ناول موبائل سے بہتر ہیں۔

رہی بات زبان وادب سے تعلق بڑھانے کی، اور مطالعہ کی تو یہ ذوق امتحان کے لئے کی جانے والی جیسی محنت سے پیدا نہیں ہوتا، جس طرح کھانے پینے کا ذوق ہوتا ہے، یہ بھی ایک ذوق ہے، جو عادت ، پسند اور ماحول سے پیدا ہوتاہے، اسے خود پر جبر کرکے پیدا نہیں کیا جاسکتا، اس ناچیز نے مکتب میں صرف پانچ سال اردو سیکھی ہے، پھر کسی اردو ماحول میں تعلیم کا موقعہ نہیں ملا، نہ مادری زبان اردو ہے نہ اعلی تعلیم کا میڈیم اردو رہا ہے، مطالعہ کے دوران ایک کتاب مل گئی جس میں لکھا تھا کہ ایک عبارت کو لکھنا بیس مرتبہ پڑھنے سے بہتر ہے، اور یہ کہ ابتدا میں  مطالعہ کے لئے کسی ایک مصنف کو اختیار کرنا چاہئے، اتفاق سے قاضی شریف محی الدین اکرمی مرحوم کے کتاب خانے میں مولانا دریابادی کے ہفتہ وار ((سچ )) کے ابتدائی پانچ فائلیں مل گئیں، ان پانچ سالوں کی سچی باتیں ہم نے نے روزانہ نقل کرنے کا معمول بنایا، ساتھ ہی ساتھ مطالعہ کی بھی عادت رہی، لیکن یہ کہنے میں حرج نہیں کہ  جو کچھ اردو لکھنا آیا یہ اسی معمولی سی  محنت کا طفیل ہے، آج ہم مولانا دریابادی کی تحریروں کو زندہ رکھنے کی جو کوشش کررہے ہیں، یہ مولانا کی اس احسان مندی کا اثر ہے۔

ہمارے جو طلبہ اردو لکھنا چاہتے ہیں، ان سے ہماری یہی گذارش ہے کہ علم وکتاب گروپ پر جو ہفتہ وار ((سچی باتیں)) کا کالم آتا ہے اسے نعمت غیر مترقبہ سمجھیں، اور ہر ہفتے اسے زبان سے پڑھ کرنقل کرنے کی عادت ڈالیں، لاشعوری طور پر آپ کی اردو تحریر کے معیار میں بڑا فرق آئے گا، روازنہ یا ہفتے میں دو صفحے لکھنا کوئی بڑی محنت نہیں۔

مولانا شہباز اصلاحی مرحوم ہمارے استاد تو نہیں تھے، لیکن وہ اس سے بڑھ کر تھے، ایسے موقعوں ہر ان کی باتیں یاد آیا کرتی ہیں، ہم نے ایک روز ان سے شکایت کی کہ جامعہ میں ہماری طالب علمی کا بھی کیا زمانہ تھا؟ جامعہ مسجد ، سلطان مسجد وغیرہ میں سالانہ سیرت کے پروگرام ہوتے تھے، جس میں طلبہ تقاریر کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن آپ نے تو یہ سب بند کردیا،کہنے لگے، ان جلسوں سے واہ واہی سمیٹنے کے علاوہ کیا ہوتا ہے؟ ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں، علامہ شبلی کی سیرت النبی کا دیباچہ ((چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آ چکی ہیں، چرخ نادرۂ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سر و سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں)) نہ جانے کتنے ہزار بچوں کو یاد کروایا گیا، لیکن ہم نے کسی کو اب تک اسے یاد کرکے مقرر بنتے نہیں دیکھا، یاد کرنے والے بچے اسے سمجھتے بھی نہیں، بغیر سمجھے عبارتوں کو یاد کروانا محنتوں کا ضیاع ہے، یہی دیکھیں آپ کے ایک استاد تھے، بچوں کو چند تقریریں ، نظمیں یاد کرواکر رکھی تھیں، تھے تو کنڑی زبان کے استاد، ساری محنت اسی پر کرتے تھے، کوئی ذمہ دار آتا تو کہتے عبد العظیم کھڑے ہوجاؤ قراءت پڑھو، نورانی کھڑے ہوجاؤ تقریر کرو، سمیع اللہ کھڑے ہو جاؤ نظم پڑھو، بچوں کو کنڑی تو نہیں آئی، لیکن ان ذمہ داران کو یہ انداز اتنا بھایا کہ استاد کو ۱۹۶۷ء کے اجلاس عام میں مولانا علی میاں کے دست مبارک سے بہترین استاد کا ایوارڈ دلا دیا۔ بچوں کو ایسی عبارتیں ازبر کروانی چاہئیں جنہیں وہ سمجھ بھی سکیں۔

 

2020-11-28

 

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/