بات سے بات۔۔۔ مولانا عاقل حسامی مرحوم اور ارض دکن کے خطیب۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Yadaun Kay Chiragh

08:50PM Sat 26 Sep, 2020

*بات سے بات: مولانا عاقل حسامی مرحوم اور دکن کے خطیب*

*تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل*

 

ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری صاحب نے مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب کا ذکر چھیڑا ہے، مولانا کو پہلے پہل ۱۹۷۰ء میں ہم نے مدراس (چنئی) میں دیکھا تھا، بننی مل کے پیچھے اردو بولنے والوں کا علاقہ تھا شولے، یہاں مسجد اعظم میں آپ کے سالانہ محرم الحرام اور ربیع الاول کی مناسبت سےسلسلے وار دس اور بارہ مواعظ ہوا کرتے تھے، یہاں کے عوام پر زیادہ تر بدعات کا غلبہ تھا، اس کے علاوہ آپ کے مواعظ  کو ٹریپلیکین والاجاہی مسجد میں بھی سننے کا موقعہ ملا، یہ دونوں علاقے مدراس میں دکنی اردو بولنے والوں کے مرکز شمار ہوتے تھے۔ مولانا کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی تھا، اس وقت آپ کی عمر چالیس کے پیٹھے میں رہی ہوگی ، ڈاڑھی سیاہ نظر آتی تھی۔ مولانا کی خوبی یہ تھی کہ اپنے بھائی جلال الدین کامل کے برخلاف اس وقت بھی بریلوی مسلک سے قریب نہیں تھے، ہمارا خیال ہے کہ آپ کے والد ماجد مولانا حسام الدین فاضل مرحوم کے یہاں بھی اعتدال تھا، عاقل صاحب کے مواعظ کے بعد آپ کے والد کے جو رسائل ان موضوعات پر فروخت ہوتے تھے، ان میں اس کا احساس ہوتا تھا۔ ممکن ہے تصوف کی راہ سے عموما جو چیزیں ہمارے مسلم معاشرے میں داخل ہوئی ہیں، ان میں سے بعض چیزیں وہاں بھی پائی جاتی رہی ہوں۔

مولانا عاقل صاحب کی خطابت کا جو رنگ ہم نے دیکھا، یہ رنگ کہیں کم ہی نظر آیا، عام طور پرفن خطابت کو شعبدہ بازی یا ایکٹنگ بنادیا گیا ہے، مولانا کی خطابت میں ایسی کوئی بات اس عالم جوانی میں بھی نظر نہیں آتی تھی، جب کہ انکے  دیوبندی مکتبہ فکر سے روابط اس وقت نہیں بڑھے تھے، ابھی وہ خوش عقیدہ لوگوں ہی میں گھرے ہوئے تھے،لیکن ان میں ایک بات تھی جو دوسرے خطیبوں اور واعظوں سے ممتاز کرتی تھی، ہم نے انہیں ہنستے ہنساتے ہوئے فورا رلاتے ہوئے اور رلاتے رلاتے فورا ہنساتے ہوئے دیکھا ہے، بس ان کی زبان تھی جو سیل رواں کی طرح چلتی جاتی تھی، کیا خوبصورت دکنی عوامی لہجہ میں وہ بولتے تھے کہ منہ چوم لینے کو جی چاہتا تھا، مولانا کے مواعظ سے بہتوں کی زندگیاں بدلیں، سیکڑوں ہزاروں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ہمیں دو مرتبہ دبی میں آپ کے ساتھ رہنے اور ان کی مجالس منعقد کرنے کا موقعہ ملا، ان میں سے بعض کی ویڈیوز بھی بھٹکلیس پر دستیاب ہیں، لیکن یہاں کی مجالس میں مولانا کی خطابت کا وہ فطری انداز موجود نہیں ہے، ہم نے حیدرآباد میں آپ کی قدیم مجالس کی ریکارڈنگس تلاش کیں، لیکن افسوس کہ وہ مل نہ سکیں، ورنہ آئندہ نسل کے لئے ان سے بہترین رہنمائی مل سکتی تھی ،ہمیں یاد ہے کہ اس زمانے میں نسیم حجازی اور صادق حسین سردھنوی کے ناول ہمارے مطالعہ میں رہتے تھے، اور مولانا عاقل صاحب کی سیرت ﷺ اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر وعظ سنتے تو ایسا لگتا جیسے ہم یہ ناول سن رہے ہوں ، وہی روانی اور تسلسل۔ مولانا کی رحلت پر ہم نے بلبل ہزار داستان کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جو آپ پر لکھے گئے اولین مضامین میں سے تھا۔

جب عاقل صاحب کا ذکر آیا ہے تو کیوں نہ دکن کی خطابت کا بھی کچھ ذکر چھڑ جائے۔ ابھی پچیس سال پہلے کونکن ریلوے کا آغاز نہیں ہوا تھا، بھٹکل کا تعلق کرناٹک سے ہونے کے باوجود ہمارے  لوگوں کی واقفیت شمالی ہند کے علماء واکابر کے بارے میں زیادہ تھی، دکن بیلٹ کے خطیبوں اور واعظوں سے تعارف کم ہی تھا، لہذا شمالی ہند کے اکابر سے مرعوبیت ایک فطری بات تھی۔ اس تناظرمیں ہم نے ہمارے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم سے کہ دیا کہ شمالی ہند کے مقررین بڑے زبردست ہوتے ہیں،تو مولانا نے فرمایا کہ یہ تاثرکچھ حد تک درست ہوسکتا ہے، لیکن سوفیصد نہیں۔ کیونکہ دکن کے خون میں خطابت رچی بسی ہے، پھر مولانا نے نام گنوانے شروع کئے، کہ آج جماعت اسلامی کے خطیبوں ہی کی مثال لیجئے، جناب سید حامد حسین صاحب، مولانا عبد الرازاق لطیفی، عبد العزیز اور سراج الحسن وغیرہ یہ سبھی ارض دکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب ہم نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ بات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ ٹامل ناڈو، اور ملبار میں خطابت کا جو ہنر پایا جاتا ہے، وہ حیرت انگیز ہے، ٹامل زبان نے بڑے اعلی پائے کے خطیب ہندوستان کو دئے ہیں ، انا دورے، پیریار، کامراج وغیرہ کی تقریریں ہم نے نہیں سنیں، لیکن کرناندھی کو ان کی جوانی میں سنا ہے، زبان سمجھ میں نہ آنے کے باوجود ان کی تقریر سنتے ہوئے چلتے پاؤں ٹہر جاتے تھے۔

نواب بہادر یار جنگ تو دکن کا پرانا نام ہے، لیکن بعد کے زمانے میں سید صلاح الدین اویسی، سید خلیل اللہ حسینی، سلیمان سکندر وغیرہ خطابت کے بڑے نام تھے، ان کے یہاں چلانا، خوش الحانی سے راگ الاپنا نہیں ہوتا تھا، لیکن اپنے پورے جسم کے اعضاء ہاتھ ،بازو، اور چہرے وغیرہ کے حرکات وسکنات کا تاثر ، پھر زبان وبیان ایسا کہ بڑے سے بڑا مجمع مٹھی میں آجاتا تھا، حالانکہ ان کی خطابت میں علمی وادبی مواد کی بہتات نہیں ہوتی تھی، دکن ہی کے ایک خطیب تھے محمد غوث خاموشی مرحوم۔ کوئی بڑے عالم فاضل نہیں تھے، نہ کوئی وجاہت تھی، ہمارے ایک ساتھی بتارہےتھے کہ سنہ ساٹھ کی دہائی میں جب وطن عزیز فسادات کی لپیٹ میں جھلس رہا تھا۔ تو آپ کا شہر ادونی پہنچنا ہوا، یہاں باہر سے شرپسند فرقہ پرستوں کی آمد اور فساد کے ڈر سے مسلمان سہمے ہوئے تھے، خاموشی مرحوم پہنچے تو چاروں طرف ہو کا عالم تھا، ایک سناٹا چھایا ہواتھا، تو چوراہے ہی پر ایک اسٹول لے کر کھڑے ہوگئے، اور تقریر شروع کردی۔ لوگ کونوں کھدروں سے نکل نکل کر تقریر سننے اکٹھےہونے لگے، اور تقریر ختم ہونے سے پہلے پہلے ڈنڈے اور بانس لے کر فسادیوں کے پیچھے ایسے بھاگے کہ انہیں لنگوٹیاں چھوڑ کر جانے ہیں میں اپنی جان کی امان نظر آئی۔

پاکستان جانے والے ارض دکن کے خطیبوں میں شاہ بلیغ الدین اور شیعہ ذاکرین میں رشید ترابی نے بڑا نام پایا۔

ڈاکٹروصی اللہ کے جد امجد مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۶۸ء میں بھٹکل تشریف لائے تھے، ہم نے آپ کی زور خطابت کا زمانہ نہیں دیکھا، لیکن ہمارے استاد احمد نوری مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ آپ چوٹی کے خطیب تھے،اور آپ کی تقریری بڑی موثر ہوا کرتی تھیں، مولانا بختیاری کے ایک فرزند سید حمید اللہ بختیاری مرحوم ہمارے رفیق درس تھے، مجلسی آدمی تھے، لشتم پشتم فراغت کی سند لی، لیکن خون میں خطابت کے جراثیم بھرپور پائے جاتے تھے، سنا ہے کہ مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری مرحوم کے گھر میں غیر فصیح زبان استعمال کرنے پر پابندی تھی،اپنے استاد مولانا سید عبد الوہاب بخاری مرحوم کی خطابت کا بھی چرچہ ہم نے سنا ہے،لیکن جب ہم نے انہیں دیکھا تو شیر بوڑھا ہوچکا تھا، لیکن ان کی بے پناہ شفیق آنکھوں کو کوئی جھانک کر نہیں دیکھ سکتا تھا، عجیب اثر تھا ان میں، مولانا دریابادیؒ نے آپ کو جگہ جگہ مسلمانوں میں انگریزی زبان کا سب سے عظیم خطیب قراردیا ہے۔ ممبی کے مقررین میں ہم نے مولانا ضیاء الدین بخاری مرحوم کو دیکھا،کیا غضب کی خطابت تھی ان کی، ہزاروں کا مجمع ان کی مٹھی میں ہوتا تھا۔ یہ سب گئی گذری باتیں ہیں، گاہے بہ گاہے ذہن میں تازہ ہوتی رہتی ہیں، کیا ان بکھری بکھری باتوں پر معذرت کردی جائے؟

2020-09-27

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/

 

 

 

 

 

ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری صاحب نے مولانا حمید الدین عاقل حسامی صاحب کا ذکر چھیڑا ہے، مولانا کو پہلے پہل ۱۹۷۰ء میں ہم نے مدراس (چنئی) میں دیکھا تھا، بننی مل کے پیچھے اردو بولنے والوں کا علاقہ تھا شولے، یہاں مسجد اعظم میں آپ کے سالانہ محرم الحرام اور ربیع الاول کی مناسبت سےسلسلے وار دس اور بارہ مواعظ ہوا کرتے تھے، یہاں کے عوام پر زیادہ تر بدعات کا غلبہ تھا، اس کے علاوہ آپ کے مواعظ  کو ٹریپلیکین والاجاہی مسجد میں بھی سننے کا موقعہ ملا، یہ دونوں علاقے مدراس میں دکنی اردو بولنے والوں کے مرکز شمار ہوتے تھے۔ مولانا کا پس منظر بھی کچھ ایسا ہی تھا، اس وقت آپ کی عمر چالیس کے پیٹھے میں رہی ہوگی ، ڈاڑھی سیاہ نظر آتی تھی۔ مولانا کی خوبی یہ تھی کہ اپنے بھائی جلال الدین کامل کے برخلاف اس وقت بھی بریلوی مسلک سے قریب نہیں تھے، ہمارا خیال ہے کہ آپ کے والد ماجد مولانا حسام الدین فاضل مرحوم کے یہاں بھی اعتدال تھا، عاقل صاحب کے مواعظ کے بعد آپ کے والد کے جو رسائل ان موضوعات پر فروخت ہوتے تھے، ان میں اس کا احساس ہوتا تھا۔ ممکن ہے تصوف کی راہ سے عموما جو چیزیں ہمارے مسلم معاشرے میں داخل ہوئی ہیں، ان میں سے بعض چیزیں وہاں بھی پائی جاتی رہی ہوں۔

مولانا عاقل صاحب کی خطابت کا جو رنگ ہم نے دیکھا، یہ رنگ کہیں کم ہی نظر آیا، عام طور پرفن خطابت کو شعبدہ بازی یا ایکٹنگ بنادیا گیا ہے، مولانا کی خطابت میں ایسی کوئی بات اس عالم جوانی میں بھی نظر نہیں آتی تھی، جب کہ انکے  دیوبندی مکتبہ فکر سے روابط اس وقت نہیں بڑھے تھے، ابھی وہ خوش عقیدہ لوگوں ہی میں گھرے ہوئے تھے،لیکن ان میں ایک بات تھی جو دوسرے خطیبوں اور واعظوں سے ممتاز کرتی تھی، ہم نے انہیں ہنستے ہنساتے ہوئے فورا رلاتے ہوئے اور رلاتے رلاتے فورا ہنساتے ہوئے دیکھا ہے، بس ان کی زبان تھی جو سیل رواں کی طرح چلتی جاتی تھی، کیا خوبصورت دکنی عوامی لہجہ میں وہ بولتے تھے کہ منہ چوم لینے کو جی چاہتا تھا، مولانا کے مواعظ سے بہتوں کی زندگیاں بدلیں، سیکڑوں ہزاروں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ہمیں دو مرتبہ دبی میں آپ کے ساتھ رہنے اور ان کی مجالس منعقد کرنے کا موقعہ ملا، ان میں سے بعض کی ویڈیوز بھی بھٹکلیس پر دستیاب ہیں، لیکن یہاں کی مجالس میں مولانا کی خطابت کا وہ فطری انداز موجود نہیں ہے، ہم نے حیدرآباد میں آپ کی قدیم مجالس کی ریکارڈنگس تلاش کیں، لیکن افسوس کہ وہ مل نہ سکیں، ورنہ آئندہ نسل کے لئے ان سے بہترین رہنمائی مل سکتی تھی ،ہمیں یاد ہے کہ اس زمانے میں نسیم حجازی اور صادق حسین سردھنوی کے ناول ہمارے مطالعہ میں رہتے تھے، اور مولانا عاقل صاحب کی سیرت ﷺ اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ پر وعظ سنتے تو ایسا لگتا جیسے ہم یہ ناول سن رہے ہوں ، وہی روانی اور تسلسل۔ مولانا کی رحلت پر ہم نے بلبل ہزار داستان کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جو آپ پر لکھے گئے اولین مضامین میں سے تھا۔

جب عاقل صاحب کا ذکر آیا ہے تو کیوں نہ دکن کی خطابت کا بھی کچھ ذکر چھڑ جائے۔ ابھی پچیس سال پہلے کونکن ریلوے کا آغاز نہیں ہوا تھا، بھٹکل کا تعلق کرناٹک سے ہونے کے باوجود ہمارے  لوگوں کی واقفیت شمالی ہند کے علماء واکابر کے بارے میں زیادہ تھی، دکن بیلٹ کے خطیبوں اور واعظوں سے تعارف کم ہی تھا، لہذا شمالی ہند کے اکابر سے مرعوبیت ایک فطری بات تھی۔ اس تناظرمیں ہم نے ہمارے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم سے کہ دیا کہ شمالی ہند کے مقررین بڑے زبردست ہوتے ہیں،تو مولانا نے فرمایا کہ یہ تاثرکچھ حد تک درست ہوسکتا ہے، لیکن سوفیصد نہیں۔ کیونکہ دکن کے خون میں خطابت رچی بسی ہے، پھر مولانا نے نام گنوانے شروع کئے، کہ آج جماعت اسلامی کے خطیبوں ہی کی مثال لیجئے، جناب سید حامد حسین صاحب، مولانا عبد الرازاق لطیفی، عبد العزیز اور سراج الحسن وغیرہ یہ سبھی ارض دکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب ہم نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ یہ بات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ ٹامل ناڈو، اور ملبار میں خطابت کا جو ہنر پایا جاتا ہے، وہ حیرت انگیز ہے، ٹامل زبان نے بڑے اعلی پائے کے خطیب ہندوستان کو دئے ہیں ، انا دورے، پیریار، کامراج وغیرہ کی تقریریں ہم نے نہیں سنیں، لیکن کرناندھی کو ان کی جوانی میں سنا ہے، زبان سمجھ میں نہ آنے کے باوجود ان کی تقریر سنتے ہوئے چلتے پاؤں ٹہر جاتے تھے۔

نواب بہادر یار جنگ تو دکن کا پرانا نام ہے، لیکن بعد کے زمانے میں سید صلاح الدین اویسی، سید خلیل اللہ حسینی، سلیمان سکندر وغیرہ خطابت کے بڑے نام تھے، ان کے یہاں چلانا، خوش الحانی سے راگ الاپنا نہیں ہوتا تھا، لیکن اپنے پورے جسم کے اعضاء ہاتھ ،بازو، اور چہرے وغیرہ کے حرکات وسکنات کا تاثر ، پھر زبان وبیان ایسا کہ بڑے سے بڑا مجمع مٹھی میں آجاتا تھا، حالانکہ ان کی خطابت میں علمی وادبی مواد کی بہتات نہیں ہوتی تھی، دکن ہی کے ایک خطیب تھے محمد غوث خاموشی مرحوم۔ کوئی بڑے عالم فاضل نہیں تھے، نہ کوئی وجاہت تھی، ہمارے ایک ساتھی بتارہےتھے کہ سنہ ساٹھ کی دہائی میں جب وطن عزیز فسادات کی لپیٹ میں جھلس رہا تھا۔ تو آپ کا شہر ادونی پہنچنا ہوا، یہاں باہر سے شرپسند فرقہ پرستوں کی آمد اور فساد کے ڈر سے مسلمان سہمے ہوئے تھے، خاموشی مرحوم پہنچے تو چاروں طرف ہو کا عالم تھا، ایک سناٹا چھایا ہواتھا، تو چوراہے ہی پر ایک اسٹول لے کر کھڑے ہوگئے، اور تقریر شروع کردی۔ لوگ کونوں کھدروں سے نکل نکل کر تقریر سننے اکٹھےہونے لگے، اور تقریر ختم ہونے سے پہلے پہلے ڈنڈے اور بانس لے کر فسادیوں کے پیچھے ایسے بھاگے کہ انہیں لنگوٹیاں چھوڑ کر جانے ہیں میں اپنی جان کی امان نظر آئی۔

پاکستان جانے والے ارض دکن کے خطیبوں میں شاہ بلیغ الدین اور شیعہ ذاکرین میں رشید ترابی نے بڑا نام پایا۔

ڈاکٹروصی اللہ کے جد امجد مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۶۸ء میں بھٹکل تشریف لائے تھے، ہم نے آپ کی زور خطابت کا زمانہ نہیں دیکھا، لیکن ہمارے استاد احمد نوری مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ آپ چوٹی کے خطیب تھے،اور آپ کی تقریری بڑی موثر ہوا کرتی تھیں، مولانا بختیاری کے ایک فرزند سید حمید اللہ بختیاری مرحوم ہمارے رفیق درس تھے، مجلسی آدمی تھے، لشتم پشتم فراغت کی سند لی، لیکن خون میں خطابت کے جراثیم بھرپور پائے جاتے تھے، سنا ہے کہ مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری مرحوم کے گھر میں غیر فصیح زبان استعمال کرنے پر پابندی تھی،اپنے استاد مولانا سید عبد الوہاب بخاری مرحوم کی خطابت کا بھی چرچہ ہم نے سنا ہے،لیکن جب ہم نے انہیں دیکھا تو شیر بوڑھا ہوچکا تھا، لیکن ان کی بے پناہ شفیق آنکھوں کو کوئی جھانک کر نہیں دیکھ سکتا تھا، عجیب اثر تھا ان میں، مولانا دریابادیؒ نے آپ کو جگہ جگہ مسلمانوں میں انگریزی زبان کا سب سے عظیم خطیب قراردیا ہے۔ ممبی کے مقررین میں ہم نے مولانا ضیاء الدین بخاری مرحوم کو دیکھا،کیا غضب کی خطابت تھی ان کی، ہزاروں کا مجمع ان کی مٹھی میں ہوتا تھا۔ یہ سب گئی گذری باتیں ہیں، گاہے بہ گاہے ذہن میں تازہ ہوتی رہتی ہیں، کیا ان بکھری بکھری باتوں پر معذرت کردی جائے؟

2020-09-27

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/