بات سے بات: مولانا نیر ربانی کا ذکر خیر... عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

06:05PM Thu 30 Jun, 2022

مولانا خلیل الرحمن برنی نے آج علم وکتاب پر مولانا نیر ربانی مرحوم  کا تذکرہ چھیڑا ہے، آج مرحوم کو کم ہی لوگ جانتے ہیں، لیکن مولانا جب زندہ تھے تو حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا ابو السعود احمد رحمۃ اللہ علیہ کے دست راست کی حیثیت سے دارالعلوم سبیل الرشاد بنگلور اور ریاست کرناٹک میں بڑی دینی خدمات انجام دیں تھیں، ریاست کرناٹک میں تبلیغی کام کو ابتدائی دنوں میں مستحکم کرنے والوں میں آپ کا بھی نام آتا ہے، بڑے ملنسار آدمی تھے، بھٹکل کئی بار آپ کا جماعتیں لے کر آنا ہوا، آخری مرتبہ ۱۹۸۹ء میں بیت اللہ کے سامنے ملاقات ہوئی تھی،حج بیت اللہ کے لئے آئے تھے، بڑے دل گرفتہ تھے، ایک روز قبل آپ کے بہت ہی عزیز دوست اور رفیق عاشق رسول پروفیسر جلال کڑپوی صاحب حج بیت اللہ کی ادائیگی سے دو تین روز قبل اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے، آپ کی نماز جنازہ حرم پاک میں لاکھوں عازمین حج نےبعد نماز مغرب امام حرم کے پیچھے ادا کی تھی، کسے معلوم تھا کہ جو جنازہ ہم نے پڑھا تھا وہ کڑپوی صاحب کا تھا، نیر ربانی صاحب نے یہ خبر خاص طور پر ہمیں بتائی تھی، کیونکہ آپ سے ہمارے تعلقات کا آپ کوعلم تھا۔

حضرت مولانا ابو السعود احمدؒ ہوں، آپ کے خلف الرشید مولانا مفتی محمد اشرفعلی باقویؒ ہوں ،یا مولانا ربانی، یہ سبھی ہم سے متعارف تھے، اور بڑی محبت کا سلوک کرتے تھے،اس میں آپ کے الحاج محی الدین منیریؒ کےتعلق کا خاص اثر تھا، سبیل الرشاد جا کر محسوس ہوتا تھا کہ تایا مرحوم کی ان کے دلوں میں کتنی عزت ہے۔

اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوا، جس پر  ( ۴۵ ) سال گذر چکے ہیں ،ایک کام کے سلسلے میں تایا کے ساتھ میں بھی سبیل الرشاد میں ٹہرا تھا، اتفاق سے منیری صاحب کہیں گئے ہوئے تھے، اور میں بھی باہر تھا، کسی کام سے منیری صاحب کی سخت ضرورت پیش آئی، میں سبیل الرشاد کو فون کرکے دریافت کیا کہ کیا منیری صاحب موجود ہیں، بھٹکل میں اب دیکھا دیکھی بھاری بھرکم القاب کا استعمال عام ہوگیا ہے، ورنہ اس زمانے میں مولانا اور صاحب سے آگے القاب استعمال کرنا ہم جانتے ہی نہیں تھے، بنگلور میں ماشاء اللہ القاب کی بھرمار ہوتی ہے، حکیم الامت لقب سنا ہے تو اس کے بالمقابل حکیم الملت بھی رائج کردیا، شاید فون اٹھانے والے کو بغیر القاب کےمنیری صاحب کےبارے میں دریافت کرنا معیوب لگا، انہوں ہماری بے ادبی کی شکایت تایا مرحوم سے کردی، اب ہمیں ڈانٹ پڑی ہے، وہ ابھی تک نہیں بھولی، لیکن ڈانٹ کا سبب کافی عرصے بعد معلوم ہوا، جب ان اکابر کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگیا۔

 برنی صاحب نے مولانا ریاض الرحمن رشادیؒ مرحوم کا ذکر کیا ہے، کتنے پیارے آدمی تھے،کتنی سادی زبان بولتے تھے، کتنا اثر تھا آپ کی زبان میں،آج سے بیس سال قبل جب بھٹکلیس ڈاٹ کام پر اڈیوز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، مولانا رشادی ؒ کے خطبات جمعہ اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتھم کے مسجد بیت المکرم کے ہفتہ وار بیانات کی فی الفور آن لائن نشر کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، یہ اپنی نوعیت کا اردو دنیا میں نیا تجربہ تھا، اس طرح اسے سے پہلے آن لائن خطبات اور بیانات کی اشاعت کسی نے شروع نہیں کی تھی۔

مولانا ریاض الرحمن رشادی مرحوم کے جمعہ بیانات پانچ سال تک بغیر انقطاع کے جاری رہے، آپ کے مصاحب مولانا مقصود عمران رشادی صاحب نماز جمعہ کے فورا بعد اسے اپلوڈ کرتے تھے،اللہ نے اس سے بڑا فیض پہنچایا، اور مولانائے مرحوم تادم آخر دعائے خیر میں ہم لوگوں کو یاد کرتے رہے، جب بھٹکل آخری بار تشریف لائے تھے، توآپ سے تاثرات بیان کرنے کی درخواست کی گئی تو آب دیدہ ہوگئے، کہنے لگے میں جذباتی ہورہا ہوں، کیونکہ میرے گھر پہنچنے سے پہلے میری اہلیہ پورا بیان سن چکی ہوتی ہے، اور امریکہ اور یورپ سے فون آنے لگتے ہیں کہ آب کا بیان سن کر ابھی فارغ ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں بھٹکلیس سے آپ کے بیانات ڈون لوڈ کرکے ساؤتھ افریقہ اور انگلینڈ میں یف یم پر بھی نشر ہونے کی اطلاعات مسلسل موصول ہوتی تھی۔ ذلک الفضل من اللہ۔

مولانا ابوالسعودؒ کے چھوٹےفرزند قاری امداد اللہ مرحوم سے بھی ہمارے شناسائی تھی۔ اپنے بڑے بھائیوں کے مقابلے میں وہ بڑے ہنسوڑ اور مجلسی تھے، عالمی قراءت کے مقابلوں میں شریک ہوتے تھے، قاری صاحب کے تذکرہ پر یاد آیا کہ مولانا ابو السعودؒ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانا محمد سعید کیرنوریؒ کے خلیفہ تھے، مولانا کیرنوری کے چھوٹے فرزند مولوی امداد اللہ کیرنوری، چنئی میں ہمارے رفیق درس ہوا کرتے تھے، کافی سالوں سے آپ کا حال احوال معلوم نہ ہوسکا۔

مولانا نیر ربانی طب وحکمت بھی جانتے تھے،ہماری آخری ملاقات کے وقت بہترین زیتون کا تیل مکہ میں تلاش کررہے تھے، کہتے تھے زیتون اور تیل کا استعمال بکثرت کرنا چاہئے، اس سے پیٹ کا السرختم ہوجاتا ہے۔  اچھے زمانے کے لوگ تھے، دین کی سربلندی کے لئے اپنی زندگیاں نچھاور کرچلے۔ اللہ درجات بلند کرے۔

2022-06-30