بات سے بات: مولانا ابو العرفان اور مولانا ضیاء الحسن کی یاد۔ ۔تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

05:26PM Tue 9 Feb, 2021

ندوے کی خوفناک راتیں کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب کی تحریر آنکھوں کو نم کرنے والی ہے،اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے دو محترم اساتذہ کرام مولانا ابو العرفان ندویؒ اور مولانا محمد ضیاء الحسن ندویؒ کی  یاد تازہ کی ہے، اور یکے بعد دیگرے ان کی  رحلت کے یاد کو اور اس پر اپنے تاثر کو قلم بند کیا ہے۔ان اساتذہ سے استفادے سے تو ہمیں محرومی رہی، لیکن  برکت کے لئے ان کی زیارت کا موقعہ ضرور نصیب ہوا۔

مولانا ابو العرفان ؒ صاحب ندوے کے قائم مقام مہتمم رہے، لیکن بنیادی طور پر وہ قدیم روایات کے استاد تھے، جنہیں علم کے سمندر کی تہوں میں غوطہ زنی میں مہارت تامہ حاصل تھی، انہوں نے شیراز ہند جونپور کے قدیم معقولات کے اساتذہ سے بھی فیض اٹھا یا تھا، ہمارے بزرگ تھے مولانا سید صبغۃ اللہ بخیتاری ؒ، بڑے پائے کے عالم ، خطیب ومدرس، منقولات ومعقولات کے  بحر زخار،اور منطق اور فلسفہ پر مہارت کو بڑی اہمیت دینے والے، ایک مرتبہ کہنے لگے کہ میرا ندوہ جانا ہوا، یہاں کے اساتذہ سے ملاقاتیں ہوئیں، تعارف ہوا، لیکن اطمئنان نہیں ہوا، لیکن جب مولانا ابو العرفان صاحب سے ملاقات ہوئی تو دل باغ باغ ہوگیا، کہ ندوہ میں قدیم علوم کی گہری معلومات رکھنے والے، اور معانی ومفہوم کی تہ تک جانے والے ایسے اساتذہ موجود ہیں۔

مولانا خالص تدریس کے آدمی تھے، انہیں تصنیف وتالیف کا ذوق نہیں تھا، مشہور ہے کہ جشن ندوہ یا کسی اورموقعہ پر فارغین ندوہ کی تصنیفات کا  اکزیبیشن لگا تھا، مولانا نے ایک ایک کتاب دیکھی،اور آخر میں تعجب  فرمایا کہ اچھا ان میں میری کوئی کتاب نہیں ہے۔

مولانا کو ہم نے ۱۹۶۸ء میں بھٹکل میں دیکھا تھا، ابو محل کے پیچھے جہاں پہلے ہمارے استاد مولانا عبد الحمید ندوی ؒ رہا کرتے تھے، وہاں پر قیام تھا، ابھی ہمارباتوں کی باریکیاں سمجھنے کی عمر نہیں تھی، اس وقت مولانا یعقوب بیگ ندوی مرحوم جامعہ کے مہتمم تھے، اور منیری صاحب کی کنوینر شپ میں جامعہ کا دستور بن رہا تھا، مولانا ابوالعرفان صاحب کو اس پر نظر ثانی اور قیمتی مشورے دینے کے لئے خاص طور پر دعوت دی گئی تھی، مولانا ملا اقبال ندوی ، مولانا حافظ رمضان ندوی وغیرہ جامعہ کی تدریس سے وابستہ کئی ایک شاگردان آپ کو گھیرے ہوئے تھے۔

ایک طویل عرصہ بعد مولانا کو جامعہ میں دوبارہ بلایا گیا تھا، اس وقت مولانا فضل الرحمن رحمانی صاحب جامعہ سے وابستہ تھے،انہوں نے ایک طویل مدت تک جامعہ رحمانی مونگیر میں انتظامی اور تدریسی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں ، مولانا بھی خالصتا پرانے ٹھرے کے آدمی تھے، تقریر اور لچھے دار باتیں انہیں آتی نہیں تھیں،وضع قطع بھی پرانے قسم کی، ان کا درس کا انداز ان اساتذہ سے مختلف تھا، جس سے طلبہ ابتک مانوس چلے آرہے تھے، لہذا طلبہ کو شاید اس سے اکتاہت سی محسوس ہونے لگی، اس وقت جانچ کے لئے ندوے سے مولانا ابو العرفان صاحب کو بھیجا گیا، مولانا نے ایک ایک استاد کے درجے میں جا کر سبق سنا، مولانا فضل الرحمن صاحب کے پاس اس وقت بیضاوی کا درس تھا، مولانا نے رپورٹ میں لکھا، کہ جیسا مولانا فضل الرحمن صاحب بیضاوی کا درس دیتے ہیں، ایسا بہترین درس آج کل انہوں نے کسی استاد سے نہیں سنا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے، حقیقت بیان کرنے میں سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔

مولانا ابو العرفان کی طرح مولانا ضیاء الحسن صاحب بھی خالص مدرس تھے، اور بد قسمتی سے ہمارے فارغین مدارس کے معاشرے میں مقررین اور مصنفین ہی کو شہرت ملتی ہے، مدرس جو اصل بنیاد کا پتھر ہوتا ہے، ان کی باتیں شاگرداں کے ذہنوں میں عمومی طور پر محفوظ رہتی ہیں، اور نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں،لیکن یہ بات کس نے بتائی ایک فیصد کو بھی  شاید اس کا حوالہ یاد نہیں رہتا، مولانا اپنے دور میں چوٹی کے شیخ الحدیث تھے، انہوں نے ایک طویل زمانہ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سرپرستی گذارا تھا، کہتے ہیں کہ مصنف عبد الرزاق جس سے مولانا اعظمی کو بڑی شہرت ملی، اس کی تحقیق و ترتیب میں زیادہ  تر محنت مولانا ضیاء الحسن ندوی  ہی کی لگی،حالانکہ آپ نے زندگی کا زیادہ تر عرصہ درس حدیث میں گذارا ان کے نام کو زندہ رکھنے والی تحریریں نظرنہیں آتیں، نہ ہی آپ کے علمی افادات کا کوئی مجموعہ، کبھی کبھار ڈاکٹر اکرم جیسے لوگوں سے آپ کا تذکرہ سننے میں آتا ہے، مولانا کے درس کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ اس میں افراط وتفریط نہیں ہوتا تھا، آخر سال تک ایک توازن کے ساتھ  درس جاری رہتا، بخاری وغیرہ حدیث کی کتابوں کا درس مکمل ہوتا، ایسا نہیں ہوتا کہ ابتدائی چند ابواب میں ہفتوں لگائے جارہے ہیں، اور پھر کتاب دوڑائی جاتی ہے۔ کاش مولانا کے علمی افادات اور تدریسی نکات پر بھی ان کے شاگردوں کا کام سامنے آتا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے، یہی وہ لوگ ہے، جن کے پاتھوں پر مستقل کی نسلیں تیار ہوتی ہیں۔

2021-02-09

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/