بات سے بات۔۔۔ مصباح اللغات اور مولانا عبد الحفیظ بلیاوی(۲)۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

06:27PM Sat 22 Oct, 2022

اب تو کیا طلبہ کیا اساتذہ سبھوں میں سہل پسندی کا چلن عام ہوگیا ہے، ہر ایک بغیر محنت کے وہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو کہانیوں کے مطابق علاء الدین  اپنا جادوئی چراغ گھس کر حاصل کرتا تھا، اب انہیں  کون سمجھائے کہ کسی چیز کے حصول میں جتنی محنت لگے گی وہ چیز  اتنی ہی پائیدار ہوگی، اب پانی پر لکیر کھینچنے میں جتنی کوشش ہوگی، اسی رفتار سے وہ مٹ بھی جائے گی، اور پتھر پر نقش نگاری میں جتنی محنت اور وقت لگے گا، اسی مقدار میں یہ نقش  خوبصورت ،دیرپا اور پائیدار ہوگا، اب ہم گوگل پر موبائل ایپ سے ایک جھپک میں جو معلومات حاصل کرتے ہیں، چونکہ اس میں ہماری محنت  اور توجہ نہیں لگتی جتنی کسی کے حافظے میں محفوظ رہنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے تو پھر یہ معلومات حافظے کا جزئ نہیں بن پاتیں ، جلد ہی یاد داشت سے پانی کی لکیر کی طرح مٹ جاتی ہیں، کیونکہ قوت حافظہ  کے لئے اللہ تعالی کا ایک قانون ہے، حواس خمسہ میں سےجتنے حواس کسی چیز کو سمجھنے اور  یاد رکھنے کے لئے استعمال ہونگے اسی قدر یہ حواس ان کی حفاظت پر مامور بھی ہونگے، اس طرح ایک ہی چیز پر آنکھیں گاڑھ کر رکھنے سے آنکھیں پتھرا تو سکتی ہیں، لیکن وہ حافظے کا حصہ نہیں بن سکتی ہیں۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ کھاتے میں کراس چیکنگ کی طرح کسی چیز کو یاد رکھنے کے لئے تلاش کے مختلف طریقے اپنائےجائیں، یہ بات اس لئے یاد آئی کہ ہمارے طلبہ و اساتذہ کا مزاج ہوگیا ہے کہ موبائل ایپ یا گوگل ٹرانسلیٹر پر جاکر مشکل الفاظ تلاش کرتے ہیں، اورکوئی بڑا تیر مارا تو اردو یا عربی کی کوئی مختصر اور آسان سی لغت کھول دیتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی لفظ  کے معنی ومفہوم کی تہ تک نہیں پہنچ پاتے،اور ذہن میں اس سلسلہ میں کوئی مضبوط تاثر نہیں بیٹھ پاتا، نہ قاری الفاظ کی گہرائی تک پہنچ پاتے ہیں، جامعات اور کتب خانوں میں بھاری بھرکم کتب لغت پڑی پڑی دھول چاٹ رہی ہوتی ہیں، شاید کتابوں کی اصناف میں یہ سب سے مظلوم صنف ہے،جسے طالب وعالم دور سے دیکھ کر گذر جاتا ہے، اور انہیں کھولنے کی زحمت بھی گوارانہیں کرتا۔ قرآن وحدیث کی گہرائی اور ان کے اسلوب کا موثر اثر قبول کرنےکے لئے ان کے الفاظ و معانی کی گہرائی تک پہونچنا نہایت ضروری ہے۔ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصر طور پر کتب لغت گذشتہ چودہ سو سالوں میں جن مراحل سے ہوکر گذری ہیں، ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے، اور اللہ کبھی توفیق دے تو ان کتابوں کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کردیا جائے۔

آسانی سے الفاظ کے معانی  ومفہوم تک پہنچنے کے لئے الف بائی ترتیب سے انہیں جن کتابوں میں شامل کیا جاتا ہے عرف عام میں ان کے لئے انگریزی لفظ ڈکشنری استعمال کیا جاتا ہے، عربی زبان میں اسے معجم  کہتے ہیں ، سب سے پہلے محدثین کرام نے اسماء الرجال کی کتابوں کو اس ترتیب پر مرتب کیا، لہذا امام بخاریؒ اور امام بغویؒ اور دوسرے محدثین کی اس نام سے ترتیب دی ہوئی کتابیں اب بھی پائی جاتی ہیں، مشہور لغوی احمد فارس الشدیاق کے زیر اہتمام جب ۱۲۹۹ء میں لسان العرب کی طباعت کا منصوبہ شروع ہوا تو فیروز آبادی کی القاموس المحیط ان کے سامنے رہی، دوران مطالعہ اس میں جو غلطیاں ملتی گئیں انہوں نے اسے یکجا کیا، اور ( الجاموس علی القاموس) کے نام سے  ایک ناقدانہ کتاب لکھ دی، کہا جاتا ہے کہ اسی کتاب سے عربی زبان میں  لفظ قاموس، ڈکشنری کے متراد ف کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ پہلے  (الف ) اس کے بعد (باء ) اس کے بعد (تاء ) کی ترتیب سے الفاظ کی ترتیب سے لغات کی ترتیب کا  رواج عرب لغت نویسوں کے یہاں اس کے  بہت بعد میں ہوا، آئیے عربی لغت کے تدوین کے مراحل اور اس کے دبستانوں پر اچٹتی نظر ڈالتے ہیں۔

احمد الشرقاوی اقبال نے اپنی کتاب معجم المعاجم میں عربی زبان کی جملہ (۱۴۰۷ ) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔یہ گذشتہ تیرہ سو سالوں کے درمیان مختلف ادوار سے ہوکر گذری ہیں،یہ سبھی جامع لغات کی فہرست میں شمار نہیں ہوتیں،  جو لغات جامع ہیں انہیں چار دبستانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

 ( ۱) دبستان تقلیبات : عربی لغات کی تالیف میں یہ پہلا دبستان ہے۔ اس میں ایک گروپ کے تحت متحدہ حروف سے بننے والے تمام کلمات یک جا کردئے جاتے ہیں، مثلا  (ر۔ک۔ب )سے بننے والے الفاظ کو ایک ہی باب میں تلاش کیا جائے گا، خواہ ان کی ترتیب کتنی ہی مختلف ہو، چنانچہ رکب، ربک، کرب،کبر،برک، اور بکر میں ہر لفظ ایک بات کے ماتحت مذکور ہوگا، اس دبستان میں دو طریقہ اپنائے جاتے ہیں،

ان میں پہلا دبستان تقلیبات صوتی کی بنیاد پر ہے،کہا جاتا ہے کہ اس کے بانی نصر بن عاصم اللیثی  (89ھ )تھے، لیکن ابتدا میں یہ طریقہ زیادہ متعارف نہ ہوسکا،اس دوران ابی عمرو الشیبانی  (ف ۲۰۶ )کی  کتاب الحروف آئی،  یہاں تک کہ خلیل بن احمد الفراہیدی (ف ۱۷۹ھ ) نے کتاب العین تصنیف کی، ، محمد بن احمد الازھری  (ف ۳۷۰ ) کی تھذیب اللغۃ،  اور مرتضی الزبیدی ( ف ۱۲۰۵ء) کی مختصر العین ، ابو علی القالی  (ف ۳۵۶ھ ) کی البارع اور ابن سیدہ(۴۵۸ھ) کی المحکم اسی دبستان کی نمائندہ  لغات سمجھی جاتی ہیں۔

اس دبستان میں دوسرا طریقہ تقلیبات ہجائی کی بنیاد پر ہے، اس میں  (ر۔ک۔ب ) سے بننے والے حروف میں پہلا حرف  (ب ) ہے، ابن درید (ف ۲۲۳ھ ) کی الجمھرۃ میں اس طریقہ کو اپنایا گیا ہے۔

 ( ۲)دبستان قافیہ ۔ قافیہ وہ لفظ ہے جس پر قصیدہ کی بنا ہوتی ہے، جس کو ردیف سے پہلے کا لفظ تک بھی کہا جاتا ہے، مجد الدین محمد بن یعقوب فیروزآبادی (ف ۸۱۶ھ ) کی القاموس المحیط، ،زبیدی کی شرح تاج العروس  من جواہر القاموس اور ابن منظور الافریقی  ( ف ۷۱۱ھ) کی لسان العرب اس دبستان کی نمائندگی کرتی ہیں۔اس دبستان کی لغات کی کثرت کی وجہ سے یہاں چند ہی لغات کے تذکرے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

 (۳ ) دبستان ابجدی ۔ اس میں حروف تہجی کی بنیاد پر معاجم کو ترتیب دیا جاتا ہے، اس میں ایک طریقہ وہ ہے جس میں مادہ کی اصل کو ترتیب کی بنیاد بنایا جاتا ہے،اس طریقہ کو عموما امام زمخشری (ف ۵۳۸ھ ) کی لغت اساس البلاغہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اور اسے شہرت أحمد بن محمد الفيومي ثم الحموي  (ف ۷۷۰ھ ) کی المصباح المنیر سے زیادہ ملی تھی، جو کہ  ایک جامع لغت کے بجائے فقہ شافعی کی کتاب العزیز شرح الوجیز کی فرہنگ  کی حیثیت رکھتی ہے۔ مختار الصحاح، المنجد، المعجم الوسیط اسی طریقہ پر ترتیب دی گئی ہیں، اور اس وقت یہی ترتیب رائج ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کی نسبت محمد بن تمیم  برمکی ( ۳۹۷ ھ ) کی طرف ہونی چاہئے ،جو زمخشری سے سوسال پہلے گذرے ہیں، اور جنہوں نے مستقل کوئی لغت تو  نہیں لکھی، البتہ جوہری کی الصحاح تاج اللغہ کی ازسر نواس نہج پر ترتیب کی۔مصباح اللغات اور القاموس الوحید اسی ترتیب پر ہیں۔

 ( ۴)ابجدی میں دوسرا طریقہ انگریزی ڈکشنریوں کا ہے جس میں اصل مادہ کے اشتقاق کا خیال رکھے بغیر لفظ جس حال میں ہے اسی ترتیب سے شامل کیا جاتا ہے۔  المنجد الابجدی، اور جبران مسعود کی الرائد اسی ترتیب  کی نمائندہ  لغات ہیں ، مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی نے بیان اللسان میں اس طریقہ کو اپنایا ہے۔

کتب لغت کی رفتار کو دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری یا چودھویں صدی عیسوی تک  جملہ پانچ صدیوں کے دوران ان میں کوئی خاطر خواہ  اضافہ نہیں ہوا، البتہ کوئی چار سو سال بعد مرتضی الزبیدی کی تاج العروس آئی جسے قاموس کی شرح ہونے اور اس میں لغت کی ترتیب وہیئت کے پرانے متروکہ دبستان ہی کو اپنانے کی وجہ سے مستقل دبستان کی حیثیت نہ مل سکی۔

اس وقت اصل مادہ کی بنیاد پر لغت کی ابجدی ترتیب ہر عربی قاری کی ضرورت بن چکی ہے، جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ محمد بن تمیم  برمکی ( ۳۹۷ ھ )  نے چوتھی صدی ہجری میں اس ترتیب کی بنا ڈالی تھی، اور اسے زمخشری (ف ۵۳۸ھ ) اور ان کے بعد فیومی ( ف ۷۷۰ھ) نے اسے اپنایا تھا، لیکن اسے مقبولیت نہ مل سکی، القاموس المحیط کی قافیہ پر ترتیب  ہی کا رواج رہا، یہاں تک کہ مرتضی زبیدی نے بارہویں صدی ہجری میں تاج العروس لکھ کر اس  رواج کو اور پختہ کیا ۔ لیکن جب فرانسیسی اور برطانوی سامراج عرب ممالک میں داخل ہوگیا، تو یورپین طرز کی الف بائی ترتیب پر کتب لغت کی ضرورت پیش آنے لگی ، اور کوئی شک نہیں کہ لبنان میں کلیسا سے وابستہ ماہرین لغت نے یہ بیڑا اپنے ہاتھ لیا، اور برمکی ، زمخشری اور فیومی کی ترتیب پر کتب لغت بڑی محنت اور اہتما م سے شائع کیں اور عربی لغت کو یورپین معیارات کے دہلیز پر لاکھڑا کردیا ، صرف عیسائی ہونےکی وجہ سے کلیسا سے وابستہ ان لبنانی عیسائی ماہرین لغت کی  کوششوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے جس جانفشانی سے عربی لغت پر محنت کی ہے، اسے صرف متعصبانہ کہ کرنظر انداز کرنا قرین انصاف نہیں ہے۔

 ( ۱) محیط المحیط  اور  قطر المحیط

اصل مادہ کی ابجدی ترتیب کے ساتھ عربی لغت کو ترویج دینے کا سہر ا لبنانی پادری بطرس البستانی  ( ۱۸۸۳ء) کو جاتا ہے، آپ نے بڑی محنت  اور عرق ریزی سے فیروزآبادی کی القاموس المحیط کو ابجدی لحاظ سے مرتب کیا اور اس میں ضروری اضافے کئے، یہ لغت  (۱۸۶۹ئ ) میں بڑے طمطراق سے رنگین حرفوں میں اعلی طباعت کے ساتھ منظر عام پر آئی، اور عربی لغت کی تاریخ میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، جب مصنف کو محسوس ہوا کہ یہ طلبہ کے معیار سے کچھ بڑھی ہوئی ہے تو پھر اس کا ایک مختصر ایڈیش ( قطر المحیط) کے نام سے مرتب کیا، چونکہ یہ کام ایک فرد کا تھا، غلطیوں کا سرزد ہونا فطری تھا، لہذا ایک اور لبنانی پادری اور ماہر لغت انستاس ماری الکرملی نے محاسبہ کیا اور اور اس کا ضمیمہ  ( المعجم المساعد ) کے نام سے مرتب کیا.

 ( ۳) اقرب الموارد فی الفصیح  والشوارد

۱۸۹۰ئ میں عرب پریس نے ایک اور کلیسائی شخصیت علامہ سعید الخوری الشرتونی کی دو جلدوں میں تیار کردہ لغت کو شائع کیا، اس کے مواد کو بھی امہات کتب سے لیا گیا تھا، اور اس میں  الفاظ کی ترتیب سابقہ لغت سے زیادہ اچھی تھی، مصنف  اس میں ہونےوالی غلطیوں کی تصحیح اور نئے الفاظ کے اضافوں کی فکر میں مسلسل رہے، اور ۱۸۹۴ئ میں اس کا ایک ضمیمہ نکلا۔ اس کی مزید غلطیوں کا پیچھا شیخ احمد رضا العاملی نے کیا  (۳۰۰ ) صفحات میں آپ کی یہ تنقید مجلۃ المجمع العلمی دمشق  میں قسط وار شائع ہوئی۔

 (۳ ) المنجد

اس سلسلے کی اہم ترین کڑی لبنانی پادری لویس معلوف کی اسکولوں کے لئے تیار کردہ لغت  المنجد شمار ہوتی ہے جو ۱۹۰۸ئ میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی، ۱۹۵۶ئ میں المنجد فی الادب والعلوم کے عنوان سے اس کا ذیل نکلا ، چونکہ یہ اپنی نوعیت کا ابتدائی کام تھا، اور اس میں عربی سے زیادہ ، فرانسیسی اورمغربی کتابوں سے مواد لیا گیا تھا، تو اس میں سنگین علمی وتاریخی غلطیاں، اور ناموں کا غلط املا پایا گیا، جس پر اہل علم نے سخت گرفت کی،  اصل المنجد میں غلطیاں کچھ کم  تھیں، لیکن اس کے تاریخی و معلوماتی ضمیمے  کی بے تحاشا غلطیوں نے المنجد کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچایا۔ اور اس پر سخت تنقیدیں بھی ہوئیں۔ جن میں مندرجہ ذیل علمائ لغت کی تنقیدوں نے بڑی شہرت پائیں

الف- عثرات المنجد في الأدب والعلوم والأعلام- للأستاذ / إبراهيم القطان،(۶۶۴) صفحات پر مشتمل یہ اپنے موضوع پر اہم ترین کتاب ہے، ۱۳۹۲ھ میں اس کا پہلا ایڈیشن سامنے آیا تھا۔

ب- كتاب النزعة النصرانية في قاموس المنجد- للدكتور / إبراهيم عوض،(۵۰) صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۱ھ میں طائف سے چھپی تھی۔

ج - سلسلة مقالات للأستاذ / منير العمادي، نشرت في مجلة مجمع اللغة العربية بدمشق.ان مقالات کے جواب میں المنجد کے ادارے نے غلطیوں کا اعتراف کیا تھا، اور مجمع کی طرف سے اطلاعات ملتے رہنے  پر اس میں اصلاح کا علانیہ وعدہ مجلۃ میں شائع کیا تھا،

د - مجموعة مقالات علامة المغرب الشيخ / عبد الله كنون، منشورة في مجلة دعوة الحق.

 ( ۴)  ۱۹۳۰ئ میں بیروت کی امریکی یونیوروسٹی کے ایما پر وہاں کے  ایک استاد عبد اللہ میخائیل البستانی نے  ( البستان) کے نام سے ایک لغت تیار کی، پھر اس کا ایک اختصار  ( فاکھۃ البستان ) کے نام سے کیا۔

معاجم میں اس ترتیب کا جادو ایسا چڑھا کہ وہ قدیم کتب لغت جو قافیہ کی ترتیب پر لکھی گئی تھی، انہیں اصل مادہ کی بنیا د پر از سر نو ترتیب دینے کی کوششیں تیز ہوئیں، ان میں استاذ عبدالسلام ہاروں کی زیرادارت لسان العرب(ترتیب نو)  ، استاد یوسف الخیاط کی لسان العرب ( ترتیب نو)  ،استاد محمد محمد تامر اور انس محمد الشامی کی زیر ادارت الصحاح تارج اللغة وصحاح العربية مرتبا ترتيبا  اور استاد الطاہر احمد الزواوی کی ترتيب القاموس المحيط على طريقة المصباح المنير وأساس البلاغة  قابل ذکر ہیں۔مکتبہ الرسالۃ نے القاموس کے جدید ایڈیشن کے آخر میں اصل مادے کی رائج ترتیب کا اشاریہ دیا، اس طرح لسان العرب اور تہذیب اللغۃ وغیرہ کے اشارئے بھی بڑی محنت سے تیار ہوئے۔

  • (۵ ) اس دوران انگریزی لغت کے طرز پر اصل مادہ کے بجائے حروف ابجدی کی ترتیب سے المنجد الابجدی ، اور جبران مسعود کی (الرائد ) شائع ہوئی، جو عربی زبان کے قاریوں میں مقبول نہ ہوسکی، اسی کے نہج پر مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی کی بیان اللسان آئی تھی، جو برصغیر میں انہی کی طرح مقبولیت نہ پاسکی۔ اس کے سلسلے میں ایک ماہر لغت کا کہنا ہے کہ اگر یہ ترتیب طلبہ میں چل نکلتی تو  یہ نئی نسل کو عربی لغت سے کاٹ دیتی۔ طلبہ اشتقاق مواد سے بالکل نابلد ہوجاتے۔

جب مولانا بلیاوی نے مصباح اللغات لکھنی شروع کی تو ان میں سے بعض لغات انہیں میسر تھیں، المعجم الوسیط ، اور معجم متن اللغہ اس کے ایک عشرہ بعد منظر عام پر آئی تھیں،معیاری اداروں اور کتب خانوں سے دور بریلی کے قصبے میں بیٹھ کر مولانا نے جو کارنامہ انجام دیا اسے کرامت کہا جاسکتا ہے۔(یہاں پر ہم مصباح اللغات تک شائع ہونے والی کتب لغت کے جائزہ کو ختم کرتے ہیں)۔

2022-10-20