بات سے بات : کیا الجامع الشامل میں تمام صحیح احادیث آگئی ہیں؟۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

08:44PM Sun 6 Sep, 2020

علم وکتاب گروپ پر شیخ محمد ضیاء الاعظمی مرحوم کی کتاب الجامع الکامل کے بارے میں استفسار آیا ہے کہ حدیث صحیح کے باب میں الجامع الکامل للشیخ ضیاء الرحمان الأعظمی رحمہ اللہ پر کیا مطلقا اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کس حد تک؟ عام طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ شیخ اعظمی نے تمام صحیح حدیثیں اس کتاب میں جمع کردی ہیں. اس سلسلے میں ہماری بھی چند گذارشات ہیں مصنف نے اس کتاب کی شکل میں حدیث مبارک کی جو خدمت انجام دی ہے، نہایت قابل قدر ہے، ان شاء اللہ یہ خدمت آپ کے اخروی درجات کی بلندی کا باعث بنے گی، بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ صحیح احادیث کی تلاش کریں، اور کلام اللہ کے ساتھ اسے بھی اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ بنائیں۔ وعظ وارشاد اور دینی موضوعات پر تصنیف و تالیف کرنے والوں کے لئے یہ ایک قیمتی تحفہ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس میں جملہ صحیح احادیث شامل ہیں حقیقت حال سے مطابقت نہیں رکھتا، اگر یہ کہنا درست ہوتا تو کتاب پہلے بارہ جلدوں میں پھر اضافے کے بعد بیس جلدوں میں نہ آتی، اضافے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس میں مزید اضافہ کی گنجائش موجود ہے۔ کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے اہل علم کو یہ معلومات حاصل کرنی چاہئے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں حدیث کی کتنی بنیادی کتابیں چھپی تھیں،پھر ۱۹۶۰ء تا ۱۹۸۰ء کی دہائی تک حدیث کی کتنی کتابیں پہلی مرتبہ چھپیں، پھر ۱۹۸۰ ء سے ابتک کتنی کتابیں پہلی مرتبہ منطر عام پر آئیں، پھر یہ کہ بڑے بڑے تحقیق مخطوطات کے اساطین ، علامہ عبد الرحمن المعلمی، احمد محمد شاکر، السید احمد صقر، ا حبیب الرحمن الاعظمی، عبد الصمد شرف الدین رحمہم اللہ وغیرہ کی تحقیق کردہ کتابیں کیوں از سر نو تحقیقات کے بعد شائع ہورہی ہیں، اس کا واضح مطلب ہے کہ حدیث کی کتابوں کے مزید ایسے مخطوطات آج کے محققین کو دستیاب ہیں، جو انہیں پہلے میسر نہیں تھے، لہذا اب مزید تحقیق اور پرانی خامیوں کو ختم کرکے نئی تصحیح اور تدقیق کے ساتھ شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ تو کیا تحقیق کا یہ سلسلہ اب رک گیا ہے، تو اس کا جواب ہے کہ نہیں، کیونکہ اب بھی دنیا میں اتنے بہت سارے قلمی کتب خانوں میں موجود مخطوطات کو کھولا نہیں گیا ہے، نہ ان کی فہرست سازی ہوئی، کہ پتہ چلے کہ جلدوں اور گٹھریوں میں محفوظ اور منتشر اوراق کن کن کتابوں کے ہیں، تو احادیث کی تلاش کا کام ابھی ختم ہونے والا نہیں۔ قلمی کتابوں کے محققین کا اندازہ ہے کہ نویں صدی ہجری تک مسلمان عالموں میں اپنی قدیم کتابوں سے تعلق اور ان کی حفاظت کا ذوق باقی رہا، نوی صدی ہجری میں امام جلال الدین سیوطی کے زمانے تک جو کتابیں موجود تھی ، وہ کتابیں پھر نظر نہیں آئیں ، کتابیں عموما عراق ، شام ، اور مصر میں پائی جاتی تھیں، عثمانیوں کے آخری دو ر میں ان ملکوں سے کتابیں ضائع یا غائب ہوئیں اور جو کتابیں آستانہ منتقل ہوئیں ، ان کی حیثیت مزار ات کی بن گئی، انہیں میوزم کی طرح سجا کر رکھ دیا گیا ، لیکن ان سے استفادے پر پہرے لگادئے گئے، لہذا موجود حکومت سے پہلے تک ترکی سے مخطوطات حاصل کرنا یا انہیں دیکھ پانا جوئے شیر لانے کے برابر تھا، ابھی تک ترکی میں موجود مخطوطات کی وصفی فہرستیں عام نہیں ہوئی ہیں، لہذا حدیث کی وہ بنیادی مسند کتابیں، جن کا ذکر جلال الدین سیوطی ، حافظ ابن حجر عسقلانی کے یہاں ملتا ہے، یا وہ کتابیں جو اسکوریال میں ہیں، اور ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی ہیں، ان کی اشاعت پر احادیث کی صحت و ضعف کے تعلق سے بہت سے احکامات تبدیل ہونے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح فقہی مذاہب میں ائمہ کے اقوال و آراء کے تقابل کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچا جاتا ہے، اسی طرح حدیث کے رجال کا فن ہے، اس میں بھی محدثین اور علماء رجال کے اقوال میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، ایک ماہر فن رجال کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک راوی کے سلسلے میں مختلف اقوال کا تقابل کرکے ان میں ترجیح کیسے پیدا کرتا ہے؟، مثلا علم رجال کے دو ستونوں حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر میں کسی رائے پر اختلاف ہوگیا، یا پھر ایک ہی مصنف کی کتاب میں ایک راوی کے سلسلے میں تضاد پایا گیا، تو پھر کس بنیاد پر راوی کے ثقہ یا ضعیف ہونے پر رائے قائم کی جائے گی، لہذا تصحیح وتضعیف اجتہادی عمل بن جاتا ہے، اب کسی نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کسی روایت کو صحیح قرار دیا اور دوسرے نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر اسے ضعیف، لہذا اگر کوئی عالم حدیث اپنے علم اور مطالعہ کی بنیاد پر صحیح احادیث کو جمع کرے ، تو حسن ظن رکھتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر اس کے صحت کی حکم کو قبول کیا جائے گا، لیکن جن احادیث کو اس نے ضعیف قرار دے کر چھوڑا ہے،ان کے سلسلے میں مزید تحقیق کا دروازہ کھلا رہے گا۔اس بحث کے مزید پہلؤوں پر ان شاء اللہ آئندہ روشنی ڈالی جائے گی۔ ‏07‏/09‏/2020 http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/