بات سے بات: کتابوں کی الفبائی ترتیب اور شیخ ابو غدہ کی رائےَ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری،بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

02:48PM Sat 5 Dec, 2020

مولانا محمد یاسر عبد اللہ نے کتابوں کی الف بائی ترتیب پر شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی تنقید کا تذکرہ کیا ہے، شیخ صاحب کی بات ایک حد تک درست ہے، جو کتابیں الف بائی ترتیب سے لکھی جاتی ہیں، وہ عموما پڑھنے کے بجائے حوالہ یا ریفرنس کے لئے استعمال ہوتی ہیں، ایسی کتابیں مسلسل پڑھنے پر ذہن میں محفوظ بھی نہیں رہتیں، یہی دیکھئے الموسوعۃ الفقہیہ الکوییتہ کتنا بڑا علمی کام ہے، یہ بنیادی طور پر حوالہ کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ہے،اور اپنے مقصد میں بہت کامیاب ہے، لیکن اسے مسلسل کون پڑھتا ہے؟، اس کے مقابلہ میں فقہ کی دوسری بڑی کتابیں ہیں، یہ ایک ترتیب سے مسلسل پڑھ جاتی ہیں، دراصل کتاب کوپڑھنے کے لئے کسی فن کی اپنی جو ترتیب ہے وہ زیادہ مناسب اور فطری ہوتی ہے، البتہ اہم کتابوں کی الف بائی ترتیب پر فہرست سازی ضروری اور مفید ہے ،لیکن مستشرقین کی نقل میں ہر کتاب کا شخصیات اور کتابوں، اور مقامات  کا جو انڈکس تیار کیا جاتا ہے، اس سے کتاب کا حجم بڑھانے سے زیادہ کوئی اہم مقصد حاصل نہیں ہوتا، البتہ مستشرقین کی کتابوں میں الف بائی ترتیب میں ایک فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے، وہ بہت مفید ہوتا ہے، اس کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ مثلا امام شافعی کا تذکرہ کتاب میں جہاں بھی آیا ہے، اس کی جلد اور صفحات کا ذکر ہوتا ہے، کتاب میں جہاں امام صاحب کا یا کتاب کا تذکرہ مقصود ہے، ذیلی حیثیت سے نہیں ہے، تو پھر ان جگہوں پر روشنائی گہری یا حرف موٹا کردیا جاتا ہے،جہاں نام  ذیلی حیثیت سے آتا ہے وہاں حروف معمول کے مطابق لکھے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ عربی یا اردو مطبوعات میں نظر نہیں آتا۔

ہمیں ذاتی طور پر شیخ وھبہ الزحیلی کی الفقہ الاسلامی وادلتہ کی فہرست کا طریقہ بہت پسند ہے،اس میں کتاب تو اپنی منطقی ترتیب کے ساتھ چلتی ہے، لیکن آخر میں الفبائی ترتیب بھی دی گئی ہے، جس پر کافی محنت کی گئی ہے، کیونکہ رؤوس المسائل کے ساتھ ذیلی عنوانات بھی دئے گئے ہیں، اس کتاب کی مقبولیت میں کتاب کی یہی خصوصیت پوشیدہ ہے،جرمن مستشرق بروکلمان نے اپنی کتاب تاریخ ادب عربی کو طبقاتی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا ہے، لیکن اس کے جرمن ایڈیشن کے  آخر میں اعلام اور کتابوں کی الف بائی ترتیب نے اس کتاب کے الکٹرونک ایڈیشن کی ضرورت ختم کردی ہے، اور کتاب کو کئی گنا مفید بنا دیا ہے، اس کتاب میں جہاں مصنف یا کتاب مقصود ہو وہاں حرف کچھ موٹا کردیا ہے، اب اگر مصنف یا کتاب کا تذکرہ ضمنا آگیا ہے تو پھر عام حروف استعمال کئے ہیں، یہی انداز الورڈ نے جرمنی کے شاہی کتب خانے کی جامع فہرست میں اپنایا ہے۔

ہندوستان کے بعض مصنفیں کے یہاں اعلام و مصنفین کے الگ اشاریہ کا اہتمام  پایا جاتا ہے، لیکن وہ رسما ہی ہیں، ان پر خاطر خواہ محنت نہیں کی گئی ہے، کیوں کہ کوئی مخصوص شخصیت یا کتاب کے بارے میں معلومات تلاش کرنا ہو، تو فہرست دیکھنے میں بے کار وقت ضائع ہوتا ہے، ایک نام دس جگہ آیا ہے، لیکن نو جگہ صرف نام کے علاوہ کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوتیں، بڑی بوریت ہوتی ہے، یہ صرف مستشرقین کی نقالی ہے، اسی وجہ سے مشہور عالم لغت شیخ محی الدین عبد الحمید نے درسیات کی کتابوں کے از سر نو جدید اور محققہ ایڈیشن تیار کئے تو ان میں الفبائی ترتیب سے فہرستیں نہیں دیں،اور کہا کہ مستشرقین سے مرعوب لوگوں کو خوش کرنے کے لئے میں مزید اوراق کا بوجھ قاری پر نہیں ڈالنا چاہتا۔

زرکلی کی اعلام اپنے موضوع پر اہم حوالہ جاتی کتاب ہے، لیکن استاد زہیر ظاظا نے اسے ترتیب الاعلام علی السنین کے عنوان سے مرتب کرکے بہت مفید بنادیا ہے،۔

قریبی دنوں میں عقیل عباس جعفری صاحب نے پاکستان کرانیکل کے نام سے پاکستان کے قیام سے ابتک کے واقعات کو روزنامہ جنگ وغیرہ کے ریکارڈ سے تاریخ واور ترتیب دیا ہے، اور آخر میں الف بائی ترتیب دی ہے، اردو میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے، تاریخ وار ترتیب اور آخر میں اس کی الف بائی ترتیب سے فہرست نے اس حوالہ جاتی کتاب کو انمول بنادیا ہے۔

2020-12-05

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/