بات سے بات: کسی کتاب میں مقدمہ کتاب کی اہمیت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

01:14PM Tue 1 Dec, 2020

مولانا محمد یاسر عبد اللہ صاحب نے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کی ایک تحریر  پوسٹ کی ہے، جس میں آپ نے اس بات کی اہمیت اجاگر کی ہے کہ

۔((مقدمہ، کتاب کا ایک ایسا ابتدائیہ ہوتا ہے جس میں کتاب کے نفس مضمون، لٹریچر ریویو، منہج و مصادر سے بحث کی جاتی ہے ۔یہ مقدمہ مصنف خود لکھتا ہے یا ترجمے کی صورت میں مترجم لکھتا ہے ۔کسی دوسرے کا لکھا ہوا کچھ اور تو ہو سکتا ہے(یعنی پیش گفتار، تقریظ،عرض ناشر وغیرہ ) مگر مقدمہ نہیں ہو سکتا)) ۔

ڈاکٹر صاحبہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کی سربراہ رہی ہیں، اور اپنے مجلہ الایام، تصانیف اور قرطاس کی مطبوعات کے توسط سے اہل علم و تحقیق کے حلقوں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں، ہمارے گروپ ممبر ڈاکٹر سہیل شفیق صدر شعبہ تاریخ کراچی یونیورسٹی جیسے کئی قلمکاروں نے آپ کے زیر نگرانی تحقیقی و تصنیفی کام کیا ہے، اور باحثین کی ایک بڑی تعداد نے ڈاکٹریٹ کے مقالے تحریر کئے ہیں۔ لہذا فنی طور پر آپ کی رائے کافی وزنی محسوس ہوتی ہے۔

ایک طالب علم جب یونیورسٹی یا دارالعلوم سے فارغ ہوتا ہے، اور تصنیفی میدان میں تربیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ ماہر اساتذہ کی نگرانی میں تصنیفی و تحقیقی تربیت میں کچھ عرصہ گذارتا ہے، یم فل اور ڈاکٹریٹ دراصل اسی کی تربیت ہوتی ہے، اس میں تصنیف وتالیف وتحقیق کی عملی مشق کی جاتی ہے، اگر سامنے مقصد صرف سند حاصل کرکے مادی ترقی حاصل کرنا نہ ہو،بلکہ اس میدان میں سیکھ  کر کچھ دکھانا بھی ہو تو ڈاکٹریٹ کے حصول پر ہونے والی محنت ایک سرمایہ اور روشنی کا ایک مینار بن سکتی ہے، لیکن چونکہ عموما اردو داں حلقہ کام چوری کا عادی ہوتا جارہا ہے لہذا ڈاکٹریٹ کی سند کا ثمر ہمارے حلقوں میں محسوس نہیں کیا جاتا ، کچھ اسی طرح ٹیچرس ٹریننگ کا معاملہ ہے، اس کا مقصد طلبہ کی نفسیات کو سمجھنا اور تدریس کے معیار کو بڑھانا ہوتا ہے، اگر قرار واقعی ان کا حق ادا کیا جائے، اور اس کا مقصد صرف پروموشن حاصل نہ ہو تو ہماری نسلیں تعلیم وتربیت کےمیدان میں کتنی ترقی یافتہ بن کر نکلیں؟، لیکن یہاں بھی فراڈ اور کرپشن اور غیر ذمہ داررویوں نے اس کی افادیت کو ختم کردیا ہے۔

ایک قاری کے لئے کتاب سمجھنے اور اس کا نہج جاننے اور اس میں رغبت پیدا کرنے کے لئے مقدمہ اور فہرست موضوعات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ایک اچھا قاری جب کتاب خریدتا ہے تو وہ ایک نظر مقدمہ اور فہرست موضوعات پر ڈالتا ہے، اگر ان میں دلچسپی محسوس ہوئی تو پھر وہ کتاب ختم کرکے ہی دم لیتا ہے، ورنہ پھر وہ آئندہ مطالعہ یا مراجعت  کے لئے شیلف میں رکھ دیتا ہے،پھر کبھی یہ کتاب اسے پڑھنے کا موقعہ ملتا ہے، یا پھر زندگی بھر اسے دوبارہ کھلنے کا موقعہ نہیں ملتا، اس کے باوجود کتاب کا خاکہ اس کی نگاہوں میں محفوظ رہتا ہے، اور اگر وہ زیرک ہے تو کتاب پڑھے بغیر چند صفحات ادھر ادھر پلٹ کراس پر درست تبصرہ بھی کرسکتا ہے۔

کتاب پر دوسروں سے مقدمہ لکھوانا، اور تقریظات کی کثرت اس بات کی علامت ہےکہ یا تو وہ مصنف اسے وسیع حلقے تک پہنچانا چاہتا ہے یا اسے اس کی تشہیر مطلوب ہوتی ہے، یاپھر مخصوص حلقوں کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

 چند احباب نے حضرت مولانا علی میاں  کی کتاب ماذا خسر کا حوالہ دیا ہے کہ اس کا مقدمہ دوسروں نے لکھا ہے، اس سلسلے میں  ایک تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ تصنیف و تالیف کے جو اصول ، تقسیمات  اور ذیلی عناوین کا اہتمام  اب یونیورسٹیوں میں رائج ہیں، آج سے ساٹھ ستر سال  پیشتر یہ اصول اتنے عام نہیں تھے، ہمارے بہت سارے اکابر کی تصنیفات میں  یہ اسلوب پایا نہیں جاتا، مثال کے طور پر آپ رئیس القلم مولانا مناظر احسن گیلانی کی تصنیفات دیکھ لی جئے ، ان میں مواد تو بہت ہے، لیکن ان کا مہنج عام  تصنیفی نہیں ہے،قدیم مصنفین میں امام ابن تیمیہؒ کا اسلوب بھی یہی ہے، لہذا ان تصانیف میں مطلوبہ مواد تک پہنچنے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔

دوسرے یہ کہ ماذا خسر پہلی مرتبہ ڈاکٹر احمد امین کی ادارت میں لجنۃ التالیف والنشر سے شائع ہوئیِ تھی، اس کی اشاعت کے بعد مصنف کا پہلی مرتبہ مصر جانا ہوا تھا، جہاں آپ کے بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ احمد امین نے کتاب کا بڑا پھپسا مقدمہ لکھ کر اس کی جان نکال دی ہے، جس کی وجہ سے اس کتاب کا جتنا وسیع تعارف ہونا چاہئے تھا،نہیں ہورہا ہے، اس وقت آپ کی میزبان جماعت کے چند مشہور اہل قلم حضرات  نے آپ کو مشورہ دیا کہ اس کا نیا ایڈیشن ہمارے حلقے سے شائع ہونا چاہئے، مصنف کے حالات زندگی مشہور عالم وخطیب شیخ احمد الشرباصی نے لکھے، اور دوسرے ایک اور معروف ادیب وصاحب قلم نے مقدمہ لکھنے کی پیش کش کی، اس کے بعد ہی مصنف نے عالم اسلام میں وہ مقام حاصل کیا، جس سے برصغیر کے مسلمانوں کا مقام بلند ہونے میں بڑی مدد ملی۔ لہذا بعض مستثنیات اور ضرورتوں کو قاعدہ نہیں بنایا جاسکتا۔

2020-12—01