بات سے بات: جہری اور سری مطالعہ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

12:10PM Sun 13 Dec, 2020

دریافت کیا گیا ہے کہ جہرا یا سرا کونسا طریقہ مطالعہ مفید ہے؟

تو عرض ہے کہ ، حافظہ کے کے دو مقاصد ہوتے ہیں، ایک ازبر کرنا، اور دوسرا سمجھ کرمطلب ومفہوم یاد کرنا۔

 زبان دانی کے لئے ازبر کی ضرورت پڑتی ہے، جس میں نصوص جیسے قرآن پاک، احادیث شریفہ، اور اشعار اور ادبی نثر کو ازبر کرنا شامل ہے، اس کے لئے جہری مطالعہ بہت مفید ہے، اور اگرمطالعہ اجتماعی ہو تو کیا کہنے!، اس کا فائدہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے، اس میں محنت بھی کم لگتی ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب چھوٹے بھائی بہن جن کی عمریں تین چار یا پانچ چھ سال سے متجاوز نہیں ہوتیں، ان میں سے بڑا بچہ بڑے آواز سے کچھ  پڑھتا ہے یا یاد کرتا ہے تو چھوٹی بہن جو تین سال سے متجاوز نہیں ہوتی، اسے بھی آیت، دعا یا نظم سن کریاد ہوجاتی ہے،اسی طرح ابتدائی درجات میں استاد اجتماعی طور پر بڑی آواز سے جو پڑھاتا ہے وہ بچوں کو بغیر محنت نہ صرف یاد ہوجاتا ہے بلکہ  کبھی کبھار جب آخری عمر میں حافظہ ساتھ چھوڑ دیتا ہےتب بھی یاد رہتا ہے، اور جن بچوں کو ابتدائے عمرمیں اس کے موقعے نہیں ملتے ان کے ازبر کرنے کی صلاحیت کمزور رہتی ہے، بڑی آواز سے مطالعہ کی ایک عمر ہوتی ہے، جس میں یہ بہت مفید ہوتا ہے، گھر کے چھوٹے بچوں سے بڑی آواز میں کہانیاں وغیرہ سننے کے لئے سرپرستان کوپابندی سے کچھ وقت دینا چاہئے، اس سے بچوں کا تلفظ درست ہوتا ہے، اور نئے الفاظ ان کے حافظے کا حصہ بنتے ہیں، یہ حافظہ اس حافظے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، جس سے دماغ تھک جاتا ہے۔

لیکن مطالعہ میں آنے والی سب چیزیں ازبر کرنے کی نہیں ہوا کرتیں، بلکہ اس میں فہم، تدبراور خوض کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ ذہن میں بات منقش رہے، اس کے لئے قاری کو مطالعہ کے بعد دماغی صلاحیتوں کو کام میں لاکر کچھ سوچنا پڑتا ہے تاکہ مفہوم اچھی طرح ہضم ہو، اور آپ کی معلومات کا حصہ بنے، اس کے لئے ازبر کرنا مفید نہیں ہوتا، ذہنی صلاحیتیں عموما اسی مطالعہ سے بڑھتی ہیں جس میں غور وخوض شامل ہو، اس مطالعہ کے لئے بلند آواز سے مطالعہ زیادہ مفید نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ مغربی نظام تعلیم میں ازبر کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، کیونکہ تجرباتی علوم سائنس ، طبیعیات ، انجینیرنگ وغیرہ میں ازبر کرنے سے زیادہ مشاہدہ اور عملی تجربہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ جن قوموں کے بچے صرف ازبر کرنے اور رٹا لگانے پر اپنی ساری توانیاں صرف کرتے ہیں، تجرباتی علوم میں وہ پس پشت رہ جاتے ہیں۔

چند روز قبل ایک شمال مغربی افریقی ملک کے علماء کی اس گروپ میں بڑی تعریفیں کی گئی تھی،دراصل افریقہ کے ممالک جہاں پر غربت عام ہے، جدید وسائل زندگی دستیاب نہیں، اور قدیم بدوی نظام رائج ہے، وہاں پر لکھنے پڑھنے کے وسائل میسر نہیں ہوا کرتے تھے، تو زیادہ تر عہد جاہلیت کی طرح ازبر کرنا ہی تعلیم سمجھا جاتا رہا ہے ، یہاں کے علماء کو درسیات کی کتابیں ازبر ہوتی ہیں، جن میں خاص طور پر صرف ونحو کے متون شامل ہیں، حفظ کی سہولت کے لئے یہ درسیات میں  الفیہ ابن مالک جیسی کتابیں رائج ہیں، زبان اور علم مشق اور تدبر سے آتے ہیں، صرف ازبر کرنے سے نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے ایک ملک کو جسے بلدۃ ملیون شاعر کہا جاتا ہے،  جس دیوارکو کھودیں تو نیچے سے ایک شاعر نکل آتا ہے، لیکن یہ شاعر بنیادی طور پر ناظم ہوتے ہیں، اب متون فقہیہ کو نظم میں کوئی ڈھال دے تو لفظی رعایت سے اسے شاعر کہا جائے گا، لیکن شعر کا جو مقصود ہے، اوراس میں ذہنی افق کی جو وسعت درکار ہے، وہ نہیں پائی جائے ، صرف

مداحی اور منقبت کے اشعار کو فن شاعری نہیں سمجھا جائے گا، ان جیسے ملکوں کے عام  علماء سے اگر آپ کوئی مسئلہ پوچھیں تو مختصر خلیل وغیرہ کی کوئی رٹی رٹائی عبارت پڑھ کر مرعوب کر دے گا، اور نحو کا کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے تو الفیہ کا کوئی شعر سنادے گا، لیکن کوئی جدید مسئلہ درپیش ہو اور کسی متن کی عبارت یاد نہ ہوتو بغلیں جھانکنے لگے گا، لہذا ان ملکوں میں ایسے علما ء اور مفکرین شاذ ونادر ہی نظر آتے ہیں، جو دنیا کی رہنمائی کرسکیں۔

النخیل مطالعہ نمبر کی ابتدا میں مطالعہ کے موضوع پر جو مضمون ہے شاید ہو آپ کی نظر سے ضرور گذرا ہوگا، اس میں اس سے متعلق کافی باتیں آگئی ہیں۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/