بات سے بات: دنیا بھر میں واحد مخطوطے کے دعوے کی حقیقت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Books Introduction

11:54AM Sat 7 Nov, 2020

علم وکتاب گروپ کے ایک وقیع رکن مولانا عبید اختر رحمانی صاحب نے تنقیدات شیخ ابو غدہ کے سلسلے میں دنیا بھر میں واحد مخطوطے کے دعوی کی حقیقت کے عنوان کے تحت شیخ ابو غدہ کی شیخ محمد لطفی صباغ کی تحقیق کردہ کتاب ( امام ابو داؤود کے رسالۃ الامام ابی دائود السجستانی الی اھل مکۃ فی وصف سننہ)  میں اس کے واحد قلمی نسخے سے اسے نقل کرنے کے دعوی پر تنقید کی ہے۔

شیخ ابوغدہ اور شیخ محمد لطفی صباغ دونوں عالم فاضل  تھے، اور ان کی علمی خدمات بھی قابل قدر ہیں، لیکن ان میں شیخ ابو غدہ کا مقام زیادہ بلند ہے، مخطوطات پر آپ کی نظر بہت  زیادہ وسیع ہے۔

جو اہل علم مخطوطات کا علم رکھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دنیا بھر میں کتابیں مخطوطات کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں، اورآج کے انٹرنٹ کے زمانے میں بھی کوئی حتمی طور پر یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ مجھے کسی کتاب کے دنیا بھر کے کتب خانوں میں موجود نسخوں کے بارے میں  مکمل معلومات ہیں، اس کی بڑی وجہ اب تک دنیا بھر کے کتب خانوں میں محفوظ مخطوطات کی تفصیلی فہرستوں کا تیار نہ ہونا ہے،  اور ساتھ ہی ساتھ جو فہرستیں تیار ہیں ان کی تیاری میں بھی سہولت پسندی  کا غلبہ ہے، ہماری ناقص رائے میں  ولیم الورد نے برلین کی رایل لائبریری کی  سنہ ۱۸۸۷ میں تیار کردہ مخطوطات کی فہرست تیاری میں  جس پتہ ماری کا کام کیا ہے ایسا کام پھر نہیں ہوا، یہ اور بات ہے الورد کی یہی فہرست بعد میں آنے والوں کے لئے رہنما بنی،  اس فہرس  کے نصف صدی بعد مولانا مسعود عالم ندوی اور حاجی معین الدین ندوی کی اور دوسرے مفہرسین کی چالیس کے قریب جلدوں میں تیار کردہ خدابخش لائبریری پٹنہ کو شاید اس سے مستثنی کیا جاسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب کارل بروکلمان نے اپنی معرکۃ آراء جرمنی زبان کی تصنیف تاریخ ادب عربی کو ابتدا میں دو جلدوں میں  شائع کیا، پھر اس کا تکملہ تین جلدوں میں کیا، اگر اس کتاب کا مکمل  ترجمہ عربی زبان میں شائع ہوتو شاید فہرست کے ساتھ اٹھارہ بیس جلدوں میں آجائے۔ بروکلمان نے اپنی کتاب میں مصنفین کے تذکرے میں دنیا بھرکی کتب خانوں میں موجود ان کی کتابوں کے قلمی نسخوں کےتذکرہ کا اہتمام کیا ہے ،  لیکن ان کے بعد آنے والے ڈاکٹر فود سزگین نے اس میں پائے جانے والے نقص کی تکمیل کا ارادہ کیا، تو کام کی وسعت کو دیکھ کر ان کی سانس پھول گئی، بروکلمان کا کام  دور جاہلیت سے  بیسویں صدی کے آغاز تک کے مصنفین پر مشتمل ہے، لیکن فواد سزگین نے اپنے منصوبہ کو مختصر کرکے اسے ۴۳۰ سنہ ہجری تک محدود کیا ہے ، یہ کام بھی جرمنی زبان میں دس جلدوں میں شائع ہوا، اگر اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہو تو شاید پندرہ جلدوں یا اس سے زیادہ تک پہنچے، لیکن بعد میں آنے والوں کے ہاتھوں ایسے مخطوطات اور فہرستیں لگیں جو سزگین کے ہاتھ بھی نہ لگ سکے تھے،ڈاکٹر حکمت بشیر یسین نے سزکین کی کتاب کا استدارک کیا اور اس میں نئے مخطوطات کا اضافہ کیا، یہ  اضافہ بھی آٹھ جلدوں میں شائع ہواہے، اور شاید مزید کی گنجائش باقی ہے۔

برکلمان نے جب اپنی کتاب تیار کی تھی تو ان کے سامنے یورپ اور دنیا بھر کے کتب خانوں کی کم از کم ۹۷ جلدوں سے زیادہ مخطوطات کی فہرستیں تھیں، اب ان فہرستوں کی تعداد  کئی گنا بڑھ گئی ہے، اور مسلسل مخطوطات کی نئی فہرستین آرہی ہیں۔

اپنے دور میں حیدرآباد کے دائرۃ المعارف العثمانیہ نے مخطوطات کی تلاش اور ان کی تحقیق پر بڑا کام کیا تھا، لیکن ان کا مدار زیادہ تر کتب خانہ سعیدیہ حیدرآباد اور کتب خانہ محمدیہ مدراس پر رہا، باہر سے بھی مخطوطات منگوائے گئے،ہمیں مکتبہ محمدیہ  مدراس میں امام ابن قیمؒ کی کتاب احکام اہل الذمہ کا وہ نسخہ دیکھنے کا موقعہ ملا  ہے جسے لبنان کے مشہور عالم و محقق ڈاکٹر صبحی الصالح مرحوم نے مرتب کرکے شائع کیا تھا، اس کے بارے میں بھی انہوں نے لکھا تھا کہ دنیا بھر میں دستیاب  اس کتاب کا واحد نسخہ ہے،  اس کے بارے میں یہ بات شاید آج کی تحقیقات کے دور میں درست نہ ہو۔اس طرح دائرۃ المعارف العثمانیہ سے علامہ عبد الرحمن المعلمی جیسی نابغہ شخصیات موجود تھیں جنہیں محققیں ذھبی العصر کے لقب سے یاد کرتے ہیں، اپنے طور پر ان حضرات نے علمی امانت داری کے طور پر جو پتہ ماری کرنی تھی، لیکن الکمال للہ، حیدراباد دکن سے شائع شدہ السنن الکبری ، مستدرک الحاکم کے ایڈیشنوں میں آج کے دور میں دستیاب شدہ تحقیقات کا موازنہ کرتے ہوئے نقص محسوس ہوتا ہے،لیکن ان سابقہ تحقیقات کی ضرورت  اب بھی باقی ہے، اور آیندہ بھی رہے گی، ممکن ہے آج جنہیں مکمل تحقیق سمجھ رہے ہیں، وہ آئندہ منکشف ہونے والے مخطوطات کی صورت میں مکمل نظر نہ آئے۔ اس کی مثال میں آپ شیخ احمد شاکر کے تحقیق کردہ امام شافعی کے الرسالۃ کو لے سکتے ہیں، احمد شاکر قلمی کتابوں کی تحقیق کے امام سمجھے جاتے ہیں، اور آپ کی تحقیق کردہ کتاب الرسالۃ للامام الشافعی  بعد کے  محققین کے لئے نمونہ ، آخری دور کے عظیم محقق ڈاکٹر محمود احمد الطناحی مرحوم نے یہی بات کہی ہے، لیکن چند روز قبل الرسالہ کا ایک نیا ایڈیشن تین جلدوں میں ہمارے پاس آیا ہے، ابھی اسے پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا، لیکن دیباچہ اور مقدمہ کو دیکھنے سے محسوس ہوا کہ نئے محققین نے اس پر بڑی محنت کی ہے، اور احمد محمد  شاکر ؒکے کام کو آگے بڑھایا ہے۔

لہذا کہنے کی بات یہ ہے کہ کسی محقق کا یہ کہنا  خلاف واقعہ ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کا ایک ہی نسخہ محفوظ ہے، لہذا  یہ کہنے میں احتیاط برتنی چاہئے، اور یہ کہ علم حدیث ورجال ، اور دوسرے علوم کی کتابوں اور تحقیقات کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہئے،بہت ممکن ہے ایسے نئے علمی خزانے مل جائیں ، جو ہمارے ایمان و عمل کو مہمیز لگانے کا باعث بنیں۔

2020-11-07

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/