Bhalai kay difa ki Himmat (03) Dr. F Abdur Rahim

Dr. F Abdur Rahim

Published in - Yadaun Kay Chiragh

10:07PM Wed 13 Dec, 2023

 ہر انسان کے اندر خیر کا پہلو ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کے اندر اس خیر کے دفاع کی ہمت ہوتی ہے۔

رمضان کا مہینہ تھا، میں امریکن ایئر لائنز کے ذریعہ اسطنبول سے کویت جارہا تھا۔

شام چار بجے ہم جہاز میں سوار ہوئے، تھوڑی ہی دیر بعد ڈنر سرو کیا جانے لگا۔ ڈنر لیکر جب ہوسٹس میرے پاس آئی تو میں نے کہا کہ میری کچھ مجبوری ہے، میں غروب آفتاب کے بعد ہی کھا سکتا ہوں۔ اگر ایئر لائنز کے rules اس کی اجازت دیتے ہوں تو فبہا، اور اگر آپ کے rules میں اس کی گنجائش نہیں ہے تو مجھے قطعا کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ تھوڑی دیر بعد مسافر کھانے سے فارغ ہو گئے، اور in-flight فلم شروع ہو گئی۔ کچھ پندرہ بیس منٹ بعد ہوسٹس میرا ڈنر لے کر آئی اور کہا: سر! اب سورج غروب ہو چکا ہے،

آپ کا ڈنر حاضر ہے، اس نے میری سیٹ کے اوپر والی بتی جلا دی اور چلی گئی۔ میرے قریب بیٹھے ہوئے مسافروں کو بتی کے جلنے پر اعتراض تھا، وہ بلند آواز سے بتی بجھانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ جب بہت زیادہ شور و شغب ہوا تو میں نے بھی بجھا دی، اور اندھیرے میں کھانے لگا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک امریکی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ طالبہ لگتی تھی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے میری سیٹ کی بتی جلا دی اور بآواز بلند کہنے لگی:

لوگو! میں کافی دیر سے ان صاحب کو watch کر رہی ہوں۔ میں نے ان کی بات بھی سنی ، یہ ان کا دینی معاملہ ہے ، وہ غروب آفتاب سے پہلے کھا نہیں سکتے تھے ، اس لیے اب کھا رہے ہیں۔ ہمیں ان کے دینی جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ پھر آواز میں سختی پیدا کرتے ہوئے اس نے کہا: ان کے ڈنر سے فارغ ہونے تک یہ بتی جلتی رہے گی۔ یہ کہہ کر وہ بیٹھ گئی۔

لڑکی کی اس پر عزم آواز نے معترضین کو بالکل خاموش کر دیا۔