عبد الرحمن حافظ: ایک عزیز ترین شخص کی جدائی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Yadaun Kay Chiragh

11:00PM Thu 1 Oct, 2020

آج جی بہت اداس ہے،اور دل مغموم، ایسا لگتا ہے جیسے آنسو آنکھوں سے جھلکنے کے انتظٓار میں ہیں، ہمارے نانا اور نانی کی آخری نشانی کوآج شام گئے نوائط کالونی کے قبرستان میں منوں مٹی کے نیچےدفنا دیا گیا، ماموں عبد الرحمن حافظ آج عصر کے وقت اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، محمد حسین حافظ کے دوبیٹوں اور دو بیٹیوں میں وہ آخری فرد تھے، جو اب تک بقید حیات تھے، اب ان کی یہ آخری نشانی بھی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی، بس نام رہے گا اللہ کا، جو باقی بھی دائم بھی۔

ماموں کا رشتہ ، والدہ اور والد کے بعد شاید سب سے قریبی رشتہ ہے، اس رشتہ میں جو شفقت اور بے تکلفی  ہوتی ہے،کہیں اور نہیں ملتی، ہمارے ماموں بھی ویسے ہی تھے، ہم دونوں کی عمروں میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا، یہی چار پانچ سال وہ ہم سے بڑے رہے ہونگے، لہذا محبت اور تعلق کی جو نوعیت اس رشتے میں ہوسکتی ہے، وہ اس کا نمونہ تھے، اور گزشتہ ساڑھے تین سال قبل والدہ ماجدہ کی رحلت کے بعد ہمارے لئے یہ شاید سب سے زیادہ دل کو دکھی کرنے والا حادثہ ہے، ویسے گذشتہ چودہ ماہ قبل ہی ان کا اس دنیا سے مادی تعلق ختم ہوگیا تھا، نماز تہجد کے لئے اٹھنے کا وقت تھا کہ اہلیہ نے اپنے شوہر نامدار کی ایک چیخ سنی کہ مجھے کچھ ہوگیا ہے، پھرزبان خاموش اور جسم ساکت وجامد ہوگیا، پھر ان کی زبان سے کبھی کوئی لفظ نہیں نکلا، ڈاکٹر نے برین ہومریج تشخیص کردیا، اس کے بعد صرف آنکھیں ہلتی تھی، حلق کی جانب ایک سوراخ کردیا گیا ، جس سے اس دوران پیٹ میں کوئی مائع غذا جاتی تھی، جسم میں جان باقی رکھنے کے لئے یہ ضروری تھا،خالق کی بارگاہ میں کس بات کی کمی ہے؟۔ اللہ کی ذات سے ناامیدی کفر ہے، ممکن ہے کبھی یہ لاشہ نما جسم حرکت کرنے لگے، اور مکمل نہیں تو تھوڑا ہی سہی دوسروں کی طرح زندگی گذار نے کے قابل ہو جائے ، وفا شعار بیوی نے اس انتظار میں دن رات ایک کردئے، اسے نہ دن کی فکر رہی نہ رات کی، نہ بھوک کی نہ پیاس کی، لیکن کارخانہ قدرت میں جو لکھا تھا، وہ ہوکر رہا، اجل آخرآہی گئی،کیا کسی کی مقررہ وقت کے بعد یہ ٹلی بھی ہے جو اب کے ٹلتی ؟

عبد الرحمن حافظ، کوئی عالم فاضل نہیں تھے، نہ کوئی مالدار وسرمایہ دار، وہ ایک عام سے انسان تھے،ایک محنت کش، سیدھے سادھے، لیکن وہ ایک ایسی تہذیب وثقافت کی علامت تھے، جو اب مٹتی جارہی ہے۔

ابھی وہ چار سال کے تھے کہ والد ماجد محمد حسین حافظ اللہ کو پیارے ہوگئے،ابا چنئی  کے ایک ہوٹل میں ملازم تھے، چائے بنانے میں ماہر،انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ ، دو فرزند، اور دوبیٹیاں چھوڑیں۔ والد کے انتقال کے ساتھ ہی بڑے فرزند کی سولہ سال کی عمر میں آنکھیں جاتی رہیں۔ شادیاں دونوں بیٹیوں کی ہوچکی تھی، لیکن بڑی بیٹی ناسودہ حال زندگی گزار رہی تھی، چھوٹی بھی کوئی ایسے فارغ البال نہیں تھی، والدہ کے سامنے پہاڑ جیسی جوانی، اس پر ان چار بچوں کی دیکھ ریکھ ، تعلیم وتربیت اور عزت کی چھاؤں فراہم کرنے کی ذمہ داری، آج بھی دماغ سوچنے سے معذور ہے کہ چار خاندانوں کے مشترکہ گھر میں ایک چھوٹے سے رسوئی کے ساتھ ایک مختصر سے کمرے میں اس بیوہ نے اپنے بچوں پر عزت کی چادر کیسے اوڑھی، اور کیسے انہیں ایک روز بھی بھوکے پیٹ سونے نہیں دیا۔ اور نہ کبھی کسی کو اس کی بند مٹھی کھولنے نہ دی!۔ گھر کا دکھ درد سامنے ہوتو ایسے میں کہاں کوئی تعلیم اور اسکول جانے کا سوچے، اس زمانے میں عموما مدرسے میں داخلہ عمر کے آٹھویں سال میں ہوتا تھا، ممکن ہے حافظ منزل کے سامنے شیخ محمد صالح کے مقبرے سے ملحق تکیہ اسکول میں آپ کی ایک دوسال ابتدائی حروف کی پہچان ہوئی ہوگی ، اور پھر ۱۹۶۲ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاسیس ہوئی تو یہاں پر ابتدا میں شامل ہونے والے طالب علموں میں وہ شامل رہے، لیکن حالات کی تنگ دامانی، اور عسرت کی زندگی میں اآٹھ نو سال کی عمر میں محنت مزدوری کرکے کچھ کمانے کا سوچنے پر مجبور کیا ، تو موہنی بستی کے پاس لکڑیوں کے ڈپو میں جاکر جلانے کی لکڑیوں کے چھلکے صبح صبح جاکر نکال کر لانے لگے، ان  کی کمائی سے آنہ دوآنہ  ملتے،جو اپنی والدہ کےقدموں پر ڈال دیتے، اپنی والدہ سے انہیں بے پناہ محبت تھی، وہ انہیں دکھی نہیں دیکھ سکتے تھے، حالات کے مقابلے کی بھی ایک حد ہوتی ہے، ابھی دس سال کی عمر تھی کہ والدہ کے  ایک دور کے رشتے دار پیشام محمد سائب مرحوم انہیں ٹاملناڈو کے تجارتی شہر تیروپور میں اپنے ہوٹل اے ون میں برتنوں کی دہلائی کی مزدوری پر لے گئے، اور پھر یہاں سے  وہ ماہانہ تنخواہ نو دس روپئے اپنی والدہ کو بھیجنے لگے۔ آج کے زمانے میں کوئی بچہ بھی دکان سے ٹافیاں لانے کے لئے شاید نہ لے،اور جس سے دو وقت کی چائے نہ مل سکے، اس کی عزت اور قدر قمیت آج کے ہزاروں سے زیادہ تھی، جب پیاس سے حلق کانٹا ہونے لگے، تو ایک قطرہ پانی بھی قدر وقیمت لعل وجواہر سے بڑھ جاتی ہے۔ اس زمانے میں جب لوگوں کے پاس نقد کچھ نہیں ہوتا تھا، چند سکے بڑی اہمیت رکھتے تھے، آج کے بہتات کے دور میں اس کا تصور خیالوں میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عمر کچھ بڑھی اور ہوٹل کے بیرے تک ترقی ہوئی اورعمر کوئی چوبیس پچیس کی ہوگئی تو تو پس انداز کرکے اپنی والدہ کی زندگی ہی میں ،اسی ہوٹل کی مزدوری کی آمدنی  سے اپنا گھر بسایا، اور اہی والدہ کی خواہش پر ایک کفایت شعار اور سوگھڑ شریک حیات لے آئے، اسی معمولی آمدنی میں سے پیٹ کاٹ کر ہم بھانجے بھانجیوں کا خیال رکھتے، اور فرمائشیں بھی پوری کرتے، اور جب ہمارا مدراس اعلی تعلیم کے لئے جانا لکھا گیا تو اپنی بساط سے باہر تعاون کی فکر بھی کی، اور جب چھٹیوں میں وطن جانا ہوتا تو اہتمام سے ایک دو روز کے لئے تیرپور میں ٹہرایا کرتے، اور اچھی طرح کھلا پلا کر کچھ تحفوں کے ساتھ گھر بھیجتے۔

۱۹۷۰ کی دہائی کے نصف آخر میں اللہ تعالی نے خلیجی ممالک کے دروازے کھول دئے، اور دوسروں کی طرح بھٹکل سے بھی لوگ جوق در جوق دبی اور دوسرے خلیجی ممالک میں جانے لگے، ۱۹۷۶ ء میں غالبا ان کا بھی قرعہ فال نکلا، دبی میں ناصر عبد اللہ نامی ایک مواطن کے گھریلو ملازم کی حیثیت سے کام شروع کیا، تنخواہ چار سو پانچسو درہم رہی ہوگی، لیکن اہل و عیال سے دور چوبییس گھنٹے کی ملازمت، آدمی عزت دار، لیکن کفیل کے گھر والوں کا انداز جھڑکیوں اور اہانت سے بھرپور، لیکن والدہ اور بال بچوں کے لئے سبھی تکلیفیں اور مشقتین قبول، چار پانچ سال تک کولہو کے بیل کی طرح اسی عذاب میں پستے رہے، اب بال بچے ہوگئے تھے، سر چھپانے کے لئے مشترکہ مکان میں جو جگہ تھی اس میں دوچار آدمیوں کے لئے بھی جگہ نہیں تھی، والدہ حسرت کرتی رہیں کہ میرے بچے کا ایک گھر ہوجائے، بیٹا محبت میں کچھ کھلا پلارہا ہے، کوئی کیلا ہاتھ میں تھما کر کہ رہا ہے کہ اماں کھاؤ، تو اماں کہتیں کہ اسے رکھو، بس تمہارا ایک ٹھکانا ہوجائے، بیٹا جواب دیتا کہ اماں کیا ایک کیلا نہ کھانے سے اتنی بچت ہوجائے گی کہ گھر بن جائے گا؟، تو اماں چپ ہوجاتیں، اماں کی دعائیں اور التجائیں رنگ لائیں، نوائط کالونی کی کشادہ فضاؤں اور کھلی آب و ہوا میں دو کمرے کی ایک کٹیا کھڑی ہوگئی، ایک طویل جدو جہد ، اور قربانیوں کے بعد ہماری نانی اماں کو اپنے خواب کی تعبیر مل گئی تھی،لیکن یہ خوشیاں زیادہ دن دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوا، ایک ڈیڑھ سال کے اندر ۱۹۸۵ء مزید خوشیاں دیکھے بغیر جنت کو سدھار گئیں، آج بھی جب اس زمانے کی یاد تازہ ہوتی ہے، اور ماحول آنکھوں کے سامنے گزرنے لگتا ہے تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے، اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک سیدھی سادھی بے بس بیوہ نے کسی طرح اپنے بچوں کو اپنی باہوں میں لے کر ان کی حفاظت کی،  شاید چیل بھی اپنے بچوں کے ساتھ اتنا کچھ نہیں کرسکتی ، آج میں اس کمرہ نما مکان پر نظر دوڑاتا ہوں، جس کی لمبائی اور چوڑائی پچیس فٹ بھی نہیں رہی ہوگی، کہ کیسے اس میں ابتدائی دن ہم نے گزرے تھے ،اور آج  کا دن ہے کہ آپ کے پوتے،پوتیوں، نواسے نواسیوں کے دس سے زیادہ مکانات بن گئے ہیں، جن میں ایسے آٹھ دس کمرے آسانی سے سما جاتے ہیں۔ لیکن اب انہیں دیکھ کر خوش ہونے والی آنکھیں کہاں ہیں؟، یہی قانون قدرت ہے، درخت بونے والا کوئی اور ہوتا ہے، اس کا پھل کاٹنے والا کوئی اور۔

پھر جب عبد الرحمن حافظ گھر کی ملازمت کی سختیوں او اہانتوں سے تنگ آگئے تو انہوں نے اس سے آزاد ہونے کی سوچی، اور کفیل سے بھاگ کر کہیں اور بہتر تلاش معاش میں کامیاب ہوگئے، ملکی قانون کے مطابق پہلے کفیل سے اجازت لینی لازمی تھی، اور بھاگنے والے پر بطور سزا نئی کفالت پر منتقلی کے دروازے بند ہوجاتےتھے، اس وقت انہوں نے ہمت دکھائی، اپنے ایک عزیز محمد عمر شینگری کے توسط سے کفیل کے پاس پہنچے، کفیل نے غصے میں آکر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا، غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو پھر ترقی کی راہیں کھل گئیں، اللہ نے کشادگی دی، بال بچے بھی بڑے ہوئے، ان کی شادی گھر آبادی کی ذمہ داری سے آزادی ہوکر پوتے پوتیوں، اور نواسے نواسیوں کو ہنستا کھیلتا چھوڑ ، اپنے رب کی طرف واپس لوٹ گئے۔

مرحوم محنت جدوجہد کا ایک نمونہ تھے، رزق حلال کی تلاش ان کی اولین ترجیح تھی، کبھی کسی کا ناحق ایک دانہ بھی منہ میں جانے نہیں دیا، ہمیشہ اس کے لئے فکر مند رہے، وہ اس بات کے کوشاں رہے کہ ان کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، تلاوت ، سنتوں اور نوافل روزوں کا اہتمام تھا، مسجد سے لگاؤ تھا، اس پر اللہ تعالی نے آخری دنوں میں چودہ ماہ تک بے بس ولاچار بستر سے لگا کر رکھ دیا، اب اگر یہ اسباب مغفرت اور اعلی درجات کے نہیں ہوتے تو پھر وہ کون سے اعمال ہیں، جنہیں اپنا کر جنت الفردوس میں جگہ مل سکے، گواہی  آپ کے سب جاننے والوں کی یہی ہے، اور اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ ان کے اعمال مغفرت کی پیشگی علامتیں تھیں۔ اللہم اغفر لہ وارحمہ

‏02‏/10‏/2020

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/