Bat say Bat. Arabi Darsiyat Ki Urdu Shuruhat
بات سے بات: عربی درسیات کی اردو شرحیں
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
( ایک روز قبل اہل علم کی ایک معتبر بزم علم وکتاب پر درس نظامی سے وابستہ اساتذہ وطلبہ میں عربی متون کی اردو شروحات کی ترویج پر ایک مباحثہ ہوا تھا، جس پر اس ناچیز نے اپنے تاثرات پیش کئے تھے، اسے یہاں اس امید پر پیش کیا جارہا ہے کہ شاید اس موضوع کے چند نئے پہلو سامنے آئیں)
جب سے شعورسنبھالا ہے اور اردو کے دوچار جملے پڑھنے میں آئے، علامہ شبلی کے تعلیمی مقالات پر پہلے پہل نظر پڑی تھی، لہذا درسیات، نصابیات اور تعلیمی نفسیات سے دلچسپی ابتدائے شعور ہی سے دل میں موجزن رہی ہے، جمالیہ کالج چنئی میں دوران طالب علمی زیادہ تردوست و احباب مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء کے امتحانات پاس کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے، اور جو طلبہ دارالعلوم لطیفیہ ویلور وغیرہ سے آتے تو یہ ادیب کامل ، ادیب ماہر کے بھی امتحانات دیتے تھے،ان سندوں کے حصول کے بعد یہ تدریسی تربیت کا کورس پی ڈی سی پاس کرتے تو پھر ان کے لئے اسکولوں اور کالجوں میں تعینناتی کے امکانات روشن ہوجاتے تھے، لہذا ان رفقاء کے پاس تعلیمی نفسیات سے متعلق متعدد کتابیں پڑھنے کو ملتی تھیں، اس زمانے میں ان کے پاس جو کتابیں پڑھنے کو ملیں، ان میں مصری ماہرتعلیمات استاذ محمد عطیہ الابراشی کی کتاب فلسفہ تعلیم وتربیت کا نام اب بھی ذہن میں محفوظ ہے، اسے مولانا رئیس احمد جعفری نے اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔
۱۹۷۵ء میں جب اس ناچیز نے تدریس کے میدان میں قدم رکھا تو ہمارے استاد ماسٹر محمد شفیع شابندری صاحب (نائب صدر سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل) نے اس ناچیز کی پہلی تنخواہ دوسو روپیہ میں سے آٹھ روپئے کاٹ کر اس کے عوض ہمارے ہاتھ میں جناب افضل حسین یم اے ایل ٹی کی کتاب فن تعلیم وتربیت تھما کرکہا تھا کہ اس کا مطالعہ ضرور کرنا، دوران تدریس ڈیل کارنیگی کی کتاب میٹھے بول میں جادو ہے بھی ہاتھ لگی، کارنیگی کی کتابوں سے ہم نے وہ چیزیں نہیں سیکھیں جس مقصد کے حصول کے لئے یہ کتابیں لکھی گئی تھیں، ہمارے خیال میں قوت خطابت اور میٹھے بول پر قدرت تو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک وھبی صلاحیت ہے، یہ صلاحیت اگر کسی میں موجود ہوتو اسے باقاعدہ سیکھنے اور محنت کرنے سے انہیں چار چاند لگ جاتے ہیں، لیکن اس مصنف کی کتابوں سے ہمیں دوسرے کئی سارے فائدے ملے، اور ان سے طلبہ کی نفسیات کو سمجھنے میں ہمیں بڑی مدد ملی، آج اس عمر میں آپ یہ کتابیں پڑھیں گے تو یہ بہت سطحی قسم کی محسوس ہونگی، لیکن اس کچی عمر میں جو ذہنی سطح تھی ، ان باتوں میں جاذبیت محسوس ہوتی تھی۔
اس وقت ہمارے مہتمم جامعہ تھے مولانا شہباز اصلاحی مرحوم، انہوں نے جب ہمارے ہاتھ میں فن تعلیم وتربیت دیکھی تو کہنے لگے کہ مصنفین ایسی کتابیں اپنے سے زیادہ بڑے معیار کے لوگوں کے لئے لکھتے ہے،اپنے سے چھوٹوں کے لئے نہیں، رامپور کی مرکزی درسگاہ اسلامی میں اس کتاب کے مصنف ذمہ دار ہیں، اس میں وہ اپنے بہت سےتعلیمی تصورات کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ہیں۔
دوران طالب علمی اور اب اس عمر میں بھی یہ بات دل میں بیٹھی ہوئی ہے کہ اس ناچیز کی مادری زبان اردو نہیں رہی، تعلیم کے دوران مکمل اردو کے ماحول سے محرومی رہی،دوران طالب علمی ندوۃ اور دیوبند تک نہیں پہنچ سکے، اور اردو زبان کی تعلیم ہماری کتاب حصہ پنجم سے آگے نہیں بڑھ سکی، باوجود اس کے سولہ سترہ سال کی عمر میں تاریخ دعوت وعزیمت ، سیرت النبی ، سیرت سید احمد شہید، اور نہ جانے کون کون سی کتابیں آنکھوں کی پتلیوں ہی سے سہی پڑھ ڈالیں، لیکن اردو زبان پر ہوئی محنت سے کئی گنا زیادہ محنت کرنے اورآٹھ دس سال عربی زبان سیکھنے کے لئے گذارنے کے باوجود سیرت النبیﷺ کے معیار کی کوئی عربی کتاب پڑھنا اور سمجھنا عموما مدرسے کے ایک طالب علم کے لئے بہت دشوار ہوجاتا ہے،اور یہ کتابیں ان کے معیار سے بلند اور مشکل محسوس ہونے لگتی ہیں، ہماری رائے میں عربی زبان کی نصابیات کی کمزوریوں کی تفصیلات میں گئے بغیر صرف اسی نکتے پر بات مرکوز کی جائے تو بیماری کی جڑ ہاتھ میں آسکتی ہے۔
اردو حواشی کی ترویج پر بعض بڑے مرکزی اداروں کو نشانہ پر لا کر جو باتیں سوشل میڈیا پر کی جاتی ہیں، اس سلسلے میں ہماری رائے ہیں کہ:
۔ دانشمند کہتے ہیں کہ جب جنگ جاری ہوتو جس فریق سے آپ کودلی ہمدردی ہو اس کے خلاف ایسے شدید تنقیدی تبصروں سے پرہیز کرنا چاہئے، جو ان اداروں کے نقصان او ان سے عامۃ الناس کے اعتماد کو زک پہنچانے کا باعث بنیں ، اس روئیے سے دشمن ہی کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے دارالعلوم اور دینی ادارے دشمنوں کی زد میں ہیں، لہذا اس نظام پر علی الاعلان تنقید میں احتیاط برتنی چاہئے،تاکہ نوخیز نسل کے دلوں سے ان کا احترام کم نہ ہو جائے ، اپنے ملی اور قومی اداروں اور شخصیات کے خلاف جذباتی ماحول سے ہر حال میں اجتناب ایک ملی فریضہ ہے۔ تنقید ہو لیکن موضوع کی حد میں رہ کر، براہ راست کسی ادارے یا کسی محترم شخصیت کو نام لے کر تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
دوسرے یہ کہ بعض محترم شخصیات کی زبان سے ایسی تعبیرات نقل نہیں کرنی چاہئے، جس سے سامع کو گھن آنے لگے، تہذیب کی معیارات سب جگہ ایک نہیں ہوا کرتے،اور ہر شخصیت کے ساتھ چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، کچھ بشری تقاضے ہوا کرتے ہیں، ان کی ہر بات کو من وعن نقل کرنے سے ان محترم شخصیات کے ذات مجروح ہونے کا شید خطرہ لگا رہتا ہے۔ رہی اصولی بات تو تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے ہمارے مدرسوں اور دارالعلوموں میں اردو تراجم وشروحات کی جس قدر ہمتیں پست کی جائیں تعلیمی نقطہ نظر سے اتنا ہی زیادہ ہے۔
دنیا میں ہر انسان کسی زبان میں اظہار خیال کی صلاحیت بحالت مجبوری ہی حاصل کرپاتا ہے، یہی دیکھئے یہاں پرہمارے بہت سارے احباب عربی پڑھے لکھے ہیں، لیکن چونکہ یہ احباب آپس میں اردو بول چال کے عادی چلے آرہے ہیں، تو وہ اپنے احباب کے ساتھ صلاحیت ہونے کے باوجود عربی زبان میں اظہار خیال نہیں کرسکتے۔
اس وقت ہمارے فضلاء اور طلبہ میں فصیح اور سلیس عربی زبان محنت کے باوجود رائج نہ ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے ابھی تک عربی زبان میں اظہار خیال ہمارے مدارس کے ماحول میں طلبہ و اساتذہ کی شدید مجبوری نہیں بنی ہے، جب تک عربی زبان میں اظہار خیال ہماری ضرورت نہیں بنے گا، اس وقت تک لاکھ نصابی کتابیں تبدیل کریں، کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
تعلیم وتربیت کے تعلق سے ایک اہم نکتہ ہم لوگوں سے مسلسل نظر انداز ہورہا ہے، تعلیم کا قدیم وجدید بنیادی اصول یہ ہے کہ طالب علم کی محنت استاذ سے تین گنا زیادہ ہو۔ لیکن ہم نے استاد کی تقریر اور عبارت کے ترجمہ ہی کو فن تدریس کی معراج سمجھ لیا ہے، لہذا حال یہ ہے کہ مدرس جتنا چرب زبان ہوگا، اور درجے میں ایران وطوران کی جتنی باتیں ہانکنے کا عادی ہوگا، عموما اسی قدر وہ مقبول اور ماہر استاد سمجھا جاتا ہے۔
یہاں ایک واقعہ بتانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مولانا فضل الرحمن رحمانی علیہ الرحمۃ کی سنہ ۱۹۸۲ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تعییانی ہوئی تھی، مولانا کوئی چرب زبان مقرر نہیں تھے،لباس ، وضع قطع بھی سیدھی سادھی تھی، بہار کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے، بعضوں نے آپ کو غیر مہذب مشہور کردیا، اور یہ شکایت سرپرست ادارے ندوۃ العلماء کے ذمہ داران تک پہنچی،لہذا جامعہ کی دعوت پر ندوے سے مولانا ابو العرفان ندوی جونپوری علیہ الرحمۃ تفتیش کی غرض سے بھٹکل تشریف لائے، مولانا نے جونپور کے پرانے منطقی اور فلسفی علماء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا تھا، آپ آکر مولانا فضل الرحمن علیہ الرحمۃ کے درس میں بیٹھے،مولانا تفسیر بیضاوی پڑھا رہے تھے، تو مولانا ابو العرفان علیہ الرحمۃ نے اسے غور سے سن کر تفتشیشی رپورٹ میں گواہی دی کہ میں نے پورے ہندوستان کے مدارس دیکھے ہیں، لیکن تفسیر بیضاوی کے نکات کو بیان کرنے والا آپ سے زیادہ ماہر استاد آج کے وقت میں نہیں دیکھا۔
جن لوگوں نے جونپور، خیر آباد، رامپور، دہلی وغیرہ کے پرانے اساتذہ کے حالات پڑھے ہوں وہ جانتے ہیں، کہ ان کے یہاں درس کا مطلب تقریر نہیں ہوا کرتا تھا، طالب علم خود محنت کرکے آتے، اوراستاد کے سامنے سبق پڑھتے،اور اسے کے معانی بیان کرتے اور استاد حسب ضرورت مشکل مقامات حل کرتے۔
آج جدید دور کے اسکولوں اور کالجوں کا تعلیمی اصول بھی یہی ہے کہ طالب علم سے جم کر محنت لی جائے، ہوم ورک کا بوجھ اتنا ہو کہ طالب علم کی کمر جھک جائے۔ بس پرانی تعلیم اور آج کی تعلیم میں فرق اتنا ہے کہ آج طلبہ سے جتنی لکھنے کی مشقیں لی جاتی ہے، اس نظام میں حفظ اور سمجھ اور غور وتدبر پر توجہ زیادہ تھی، وہ زمانہ غربت کا تھا، قلم ، کاغذ اور دوات جتنے آج سستے ہیں اس زمانے میں اتنے ارزاں نہیں تھے، ائمہ وموذنین اپنی اولادوں کو باربار انہیں خرید کردینے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔
یہ واقعہ خود ہمارے سامنے کا ہے، استاد محترم مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمۃ طلبہ سے بہت زیادہ تحریری مشقیں لیا کرتے تھے، عربی گردان میں کہیں ایک غلطی پر نظر پڑ جائے تو پھر کبھی سو اور دوسو گردانیں لکھواتے تھے، بطور سزا ایک ایک رات میں پچیس او پچاس صفحے کی کاپیاں بھرنی پڑتی تھیں، ایک مرتبہ ہمارے یہاں کی ایک بڑی مسجد کے امام صاحب نے جن کے فرزند ہمارے درجے میں پڑھتے تھے، آکر شکایت کی کہ مشکل سے گھر کے اخراجات چلتے ہیں ، اس میں روزانہ کاپی اور قلم خرید کر کہاں سے دیں؟۔ سابقہ زمانے میں حفظ متون اور مختصرات کے رواج کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا۔
کسی زمانے میں مصر سے زرد اور نہایت ہی سستے کاغذ پر درسیات اور کتابیں چھپا کرتی تھیں ، ایک جلد کی کتاب میں کئی ایک حواشی ہوتے تھے، مثلا ہماری نظر سے تلخیص المفتاح کا ایک نسخہ گذرا تھا، جسے ممبئی کے ابناء غلام رسول سورتی نے شائع کیا تھا، چار جلدوں پر مشتمل مجموعے میں چھ چھ شرحیں اور حواشی تھے۔ آج کے زمانے میں یہ کتاب چھپے تو ضخیم دس جلدوں میں بھی نہ آئے، یہی دیکھئے ہمارے محترم ڈاکٹر محمد تقی الدین مظاہری ندوی دامت برکاتھم نے صحیح بخاری، علامہ احمد علی سہارنپوری کے حاشئے کے ساتھ بڑی شاندار تحقیق کے ساتھ (۲۰) جلدوں میں شائع کی ہے، اس کی ہر جلد سات سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے،جبکہ ہمارے یہاں مجتبائی دہلی سے لیتھو پر دو جلدوں میں شائع شدہ نسخے کی آفسٹ کاپی اب تک رائج رہی ہے،ایک مرتبہ ہم نے ایک پرانے عالم دین سے شکایت کہ مصرکی شائع شدہ کتابیں بہت سستے کاغذ پر چھپنے کی وجہ سے جلد خراب ہوجاتی ہیں، توفرمایا کہ اسی وجہ سے یہ کتابیں ہر غریب وفقیر طالب علم کی دسترس میں پائی جاتی ہیں،ورنہ مدرسوں میں پڑھنے اور پڑھانے والے غریب مولوی ان کتابوں کو ترستے رہ جاتے، معاشی طور پر مارا ہوا امام اور مولوی کا یہ طبقہ کہاں سے گلیز پیپر پر چھپنے والی قیمتی کتابیں خرید نے کے لئے پیسے کہاں سے لاتا۔
2025-01-28