Bachchoun Ka Adab. Dr, Fayyaz Ahmed

Dr. Fayyaz Ahmed

Published in - Zaban O Adab

03:53PM Sun 21 Jan, 2024

بچوں کا ادب، ایک سماجی ذمہ داری

ڈاکٹر فیاض احمد

گزشتہ چند سالوں کے دوران سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطح پر بچوں کے ادب پر بہت کام ہوا. ہے۔ جہاں سرکاری سطح پر اسے ایک مخصوص شعبہ کے طور پر جانچنے اور پرکھنے کا عمل شروع ہوا ہے وہیں قومی و بین الاقوامی پبلشروں نے کتابیں لکھنے کی سمت میں نئے نکات کی نشاندہی کی ہے۔ بچوں کے ادب کیلئے ایوارڈ دینے کی منصوبہ بندی بھی شروع ہو رہی ہے اور نئے ادبیوں کی تلاش بھی۔

پہلے ایسی صورتحال بڑے پیمانے پر کم ہی دیکھنے میں آتی تھی۔اردو اور ہندی میں پہلے مصنف سنجیدہ موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ بچوں کیلئے  لکھنا معمولی بات لگتی تھی۔ سرکاری ادارے اپنے سال بھر کے پروگرام میں بچوں کے ادب کو جگہ نہیں دیتے تھے۔ اب صورتحال بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ تاہم تھوڑا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صورتحال پہلی نظر میں جتنی حوصلہ افزا دکھائی دیتی ہے کیا واقعی یہ اتنی اطمینان بخش ہے؟ وقت رہتے ہوئے اس سوال کا حل تلاش کر لینا بچوں کے ادب سے جڑے لوگوں کیلئے ضروری ہے۔ آج بازار میں بچوں کی کتابیں اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ لگتا ہے جیسے پچھلے برسوں کی کمی کو جلد سے جلد پورا کرنے کی دوڑ لگی ہے۔ جاذب نظر سرورق، خوبصورت تصویروں سے آراستہ، پرکشش طباعت بچوں کی کتابیں اتنی دیدہ زیب پہلے بھی نظر نہیں آئیں۔ کتا بیں  تو آ رہی ہیں، ادیب ادب پارے کی تخلیق بھی کر رہے ہیں، مصنف بھی کتابیں تصنیف کر رہے ہیں لیکن ذرا سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کتابوں کے موضوعات کیا ہیں۔ کہیں قدامت پرستی کا اثر ان کی تحریروں میں شامل تو نہیں؟ ساتھ ہی یہ بھی قابل فکر ہے کہ  کتابیں  قارئین کی تلاش میں ہیں یا خریدار کی؟ اس پر غور و فکر کئے بغ یرہ کتابیں قارید ہیں یا محض کے بغیر ہم نہ تو بچوں کے ادب کی ذمہ داری کو سمجھ سکیں گے اور نہ ہی اس کے تخلیقی عمل کو ۔ بچوں کیلئے لکھی گئی کتاب، اس پر مبنی ٹی وی پروگرام ، فلم اور آخر میں اس کتاب کے کرداروں کے ذریعہ استعمال ہونے والی اشیا کا کھلونے کی شکل میں فروخت آج ایک کتاب کے اتنے سارے کردار دستیاب ہیں۔ ان کرداروں کے مابین بنیادی رشتہ کیا ہے؟ کیا یہ سارے کردار صرف اس مقصد سے تخلیق کئے جاتے ہیں کہ بچوں کی ہمہ جہت ترقی ہو یا کسی اور کاروبار کی طرح یہ بھی ایک کاروبار بن کر رہ گیا ہے جس کیلئے بچے قاری کم اور صارف زیادہ ہیں۔

کتابیں بچوں میں سماجی شعور پیدا کرتی ہیں اور انہیں سنوارتی بھی ہیں۔ ہر اچھی کتاب  شاید یہی کرتی ہے، چاہے وہ بڑوں کیلئے لکھی گئی ہو یا بچوں کیلئے۔ تاہم بچوں کے ادیبوں کا فرض بڑوں کے ادیبوں سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ بچوں کے ادب پارے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ سادہ اور آسان ہوتے ہیں۔ اس لئے بچوں کے ادبیوں سے زیادہ توقعات کی جاتی ہیں۔ یہ توقعات موضوع کی سطح پر بھی ہوسکتی ہیں اور زیادہ کی سطح پر بھی۔ تاہم اس کی شکل کیا ہوگی، اس پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے بچوں کی تجرباتی دنیا، کچھ یکسانیت کے باوجود، بالکل ویسی نہیں ہے جیسی آج سے 25-20 سال پہلے کے بچوں کی تھی۔ ایک طرف ان کی تجرباتی دنیا میں رسائل و جرائد بھی شامل ہیں اور سٹیلائٹ ٹی وی کے 500 سے زیادہ چینل اور سوشل میڈیا بھی ہے۔ بچوں کے سامنے کیسے ایک متبادل پیش کیا جائے ، یہ غور وفکر کا موضوع ہے۔ بچوں کا تصور اور تنقیدی رجحان شاید بڑھ رہا ہو، ان کی زبان فروغ پارہی ہو تاہم ان کی سماجی ذمہ داری اور ان کے

شعور کی سطح زوال پذیر ہے۔ ایسے میں آج کے ادیبوں کو دو سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی سطح یہ ہے کہ بچوں کے ادب کی تخلیق کو قدامت پسندوں سے آزاد کرانا ہے۔ یہ دقیانوسی خیالات جنس سے متعلق ہو سکتے ہیں اور ذات و برادری سے بھی ان کا رشتہ ہو سکتا ہے۔ ان دقیانوسی افکار سے آزادی حاصل کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری سطح یہ ہوگی کہ موجودہ پس منظر میں بچوں کا ذہن کیسے منطقی سوچ کی جانب موڑا جائے ۔ یہ مشکل ضرور ہے، مگر نا ممکن نہیں۔

بچوں کے ادب کو حسب ذیل زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

پھلا: ایسا ادب جس کی تخلیق بڑے کرتے ہیں اور اس کے قاری بھی بڑی عمر کے ہوتے ہیں لیکن کردار بچے ہوتے ہیں۔ بچے ایسے ادب پارے کو پڑھتے ہیں لیکن اس سے خود کو جوڑ نہیں پاتے ہیں۔

دوم: اس زمرے میں ایسے ادب کو رکھ سکتے ہیں، جو بچوں کیلئے لکھا گیا ہو، اس کے کردار بڑے بوڑھے، بچے، چرند پرند را جا رانی، پر یاں کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے ادب میں ایک خاص سوچ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ بچوں کو کچھ نہیں آتا ہے۔ انہیں سیکھنے اور سمجھنے کیلئے کچھ ادب پارے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ ایک بہتر زندگی گزار سکیں ایسے ادب میں پنچ تنتر اور الف لیلیٰ جیسی کلاسیکی تخلیقات شامل ہیں۔

سوم: اس زمرے میں ایسا ادب شامل ہے جسے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن بڑے پڑھنے نہیں دینا چاہتے ۔ ان کو لگتا ہے کہ اس سے بچے بگڑ جائیں گے۔ کارٹون، تصویری کہانیاں، پریوں کی کہانیاں وغیرہ۔ ان کو بچے چھپ چھپ کر پڑھتے ہیں، بہانہ بنا کر پڑھتے ہیں۔

چهارم: ادب ایسا بھی ہوتا ہے جو بچوں کو دھیان میں رکھ کر لکھا جاتا ہے۔ ان کے کردار بچے ہو سکتے ہیں لیکن ایسے ادب میں علم اور نصیحت سے بچا جاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے ہوتا ہے کہ اگر بچے کو آپ  نصیحت کرنا  تو وہ اسے کبھی قبول نہیں کرتے۔ ہم اپنے گھروں میں بھی ایسی مثالیں دیکھتے ہیں، ہم بچوں سے کہتے ہیں کہ بارش میں مت کھیلومت بھیگو ، مشین کومت چھوؤ ، ایسا مت بولو، یہ مت کرو، وہ مت کرو وغیرہ۔ آپ بچوں کو جتنا باز رہنے کی نصیحت کرتے ہیں، بچے اتنا ہی اسے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل وہ آپ کو چیلنج دیتے ہیں کہ لو کر لیا اور کچھ نہیں ہوا۔

پنجم: کچھ ادب پارے ایسے ہوتے ہیں جو بچوں کے ذریعہ لکھے ہوئے ہیں اور وہی پڑھتے بھی ہیں۔ ایسے ادب میں بچے اپنے الفاظ اور کردار کے ذریعہ اپنی تخلیقی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ بچوں کے بہتر ادب کی خصوصیات یہ ہونی چاہئیں کہ وہ قاری کو بطور خاص بچوں کو متوجہ کرے ۔ اگر ادب پارے بچوں کو اپنی طرف طرف راغب نہیں کر پاتے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس ادب پارے میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ بچے اپنے تجسس اور شوق کی تکمیل کیلئے دادا دادی، نانا نانی، چاچا چاچی وغیرہ کے پاس جاتے تھے لیکن اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے اس دھما کہ خیز دور میں ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ ان پر غالب آگئے ہیں لیکن کیا بچوں کو ان کے توسط سے یہ سکھایا جا سکتا ہے کہ ہمیشہ سچ بولنا چاہئے، سچے کا بول بالا ، جھوٹے کا منھ کالا ، ” بڑوں کا احترام کرنا چاہئے، سچ بولنے سے انسان عظیم ہوتا ہے، ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنی چاہئے وغیرہ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے سامنے ایک مثال پیش کی جانی چاہئے ، انہیں متبادل فراہم کرنا چاہئے۔ کسی کی مدح سرائی کرنے سے بہتر ہے کہ اس شخص کو کچھ اچھا کرتے ہوئے دکھایا جائے اور اس کے برتاؤ سے اس کی اچھائی پیش کی جائے۔ بچوں میں کہانی سننے اور پڑھنے کی ایک

قدرتی بھوک ہوتی ہے، اس لئے حساس اور سنجیدہ موضوعات کو کہانی کے ذریعہ سمجھانا دلچسپ بھی ہوتا ہے اور آسان بھی۔ لہذا بچوں کے ادب کے حوالے سے کہانی لکھنے کی سمت میں خاص توجہ دینی چاہئے۔ بچوں کیلئے کہانی لکھنے کیلئے ایک مخصوص لیاقت درکار ہوتی ہے۔ اس تخلیقی کام میں مشاہدہ، تخیل، زبان سے واقفیت، ادب کی معلومات، تکنیک، سماجی شعور سب کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بچوں کی دنیا میں مہمان خدا کا روپ ہوتے ہیں ایک فقرہ نہیں بلکہ ایک ذہنی رویہ ہے۔ اس سمت میں صلاح و مشورہ ہر سطح پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ سبھی طبقوں کی شراکت ہو سکے۔

☆☆☆