Aziz Belguami

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

11:21PM Fri 28 Nov, 2025

 

 آج علی الصبح بنگلور سے عزیز بلگامی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے اطلاع نے دل ودماغ کوبہت مغموم کردیا، آپ نے اس جہان فانی میں (71) سال گذارے۔

آپ کی پیدائش کرناٹک کے ضلع بلگام کے گاؤں کڑچی میں یکم مئی 1954 کو ہوئی تھی، آپ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس نے آج سے سوا دو سو سال قبل  سلطنت خداداد کے دور میں  مقامی حکمران کی حیثیت سے سلطان ٹیپو شہیدؒ کا ساتھ دیا تھا، لہذا آپ کے خانوادے کے ساتھ جمعدار لقب لگتا تھا۔ اس لئے آپ کے والد ماجد محمد اسحاق مرحوم جمعدار کہلاتے تھے۔

آپ کی ابتدائی تعلیم جنیدیہ اسکول اور باشیبان ہائی اسکول کڑچی میں ہوئی، کٹل کالج دھاڑوار سے جب آپ بی یس سی کررہے تھے تو آپ کو پروفیسر سید نور الدین قادری نور مرحوم کا فیض حاصل ہوا۔جس نے آپ کی فکر پر گہرا اثر چھوڑا۔

قادری مرحوم ایک منجھے ہوئے استاد اور مربی تھے، آپ جماعت اسلامی ہند سے وابستہ تھے۔ جب ڈاکٹر سید انورعلی سابق پرنسپل انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل نے سنہ  1970ء کی دہائی کے آواخر میں جماعت اسلامی کے زیر سرپرستی  اڈپی کے قریبی قصبے ملپے میں اسلامیہ عربک کالج کا آغاز کیا تھا  ، اور جو چند سال بعد  ہاسن منتقل ہوکر دی ہاسن اسکول کے نام سے موسوم ہوا تو اس کے قیام میں پروفیسر سید نور الدین قادری بھی ڈٓاکٹر صاحب کے شریک کار تھے، اس سلسلے میں مشورے کے لئے ڈاکٹر صاحب کے یہاں آپ کی آمد ہوتی تو آپ سے بھی کبھی کبھار ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔

عزیز بلگامی کی  ابتدائی پہچان عزیز الدین عزیز کے  نام سے ہوئی تھی، اور آپ کی شہرت آغاز 1981ء میں وادی ہدی، حیدرآباد میں منعقدہ اسلامی مشاعرے میں  پیش کردہ نعت سے ہوا تھا، جس کا پہلا مصرع تھا:

اہل ستم  کے پتھر کھا کر گل برسانے والا وہ

اور دعا کے واسطے اپنے ہاتھ اٹھانے والا ہو

ان سے نسبت خاص کا ہر دم ڈھونگ رچانے والے ہم

اور عمل کے میداں میں ہم سب کو بلانے والا وہ

 

یہ نعت رسول ﷺ ادبی افق پر ایک نئی اور تازہ جھونکا بن کر ابھری تھی، جس میں حضور اکرم ﷺ علیہ وسلم کے خد وخال کے بجائے آپ کے کردار اور دعوت کی تصویر کشی اجاگر کی گئی تھی، یہ ایک تحریکی اور پیغامی نعت تھی۔  

اس وقت اس ناچیز کی وابستگی دبی میں ایک مختصرلیکن وطن عزیز کے ایک  محدود دائرے میں فعال ادارے جمعیت تربیت اسلامی سے ہوا کرتی تھی۔  یہاں سے 1980ء میں ہم نے پیغام اسلام کیسٹ سیریز اور کاروان سخن کیسٹ سیریز کے نام سے درس وتقاریر اور شاعروں کی آواز میں کلام کی ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع کیا تھا، جو اس زمانے میں ایک بالکل نئی چیز تھی۔ ہماری معلومات کی حد تک اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی، کیونکہ اس وقت اردو کیسٹیں دبی سے پھیلتی تھیں، اور یہاں رہنے والوں کے لئے بہ نسبت سستی تھیں، اور برصغیر میں ہر خاص وعام کے بس کی چیز نہیں تھی، ان کی آمدنی کے مقابلے میں یہ کافی مہنگی پڑتی تھیں، تحریکی رہنما مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے ہمارے سلسلوں کو دیکھ کر ہی لاہور میں الابلاغ لمیٹڈ رجسٹرڈ کیا تھا، اور وہاں سے مولانا  مودودیؒ کی چند کیسٹوں کا اجراء کیا تھا، آپ سے پہلے ہمارے ادارے سے مولانا مودودی کی نادر آڈیو تقاریر، سیرت ﷺ کا پیغام (پنجاب یونیورسٹی)، آزادی کے تین مفہوم (پرچم کشائی جمعیت 1968ء)، علمی تحقیقات کیوں اور کس طرح (افتتاحی تقریب ادارہ معارف اسلامی 1962ء)، ہمارے سلسلوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچ چکی تھیں۔

 اس وقت ہمارے چند احباب نے حیدرآباد اجتماع میں شریک ہوکر اس کے مکمل پروگرام کی آڈیو ریکارڈنگ محفوظ کی تھی۔ جس میں یہ مشاعرہ بھی تھا، جس کا آغاز عزیز بلگامی کی اس نعت سے ہوا تھا۔ یہ ہمارے لئے شرف کی بات ہے اس کیسٹ کا بھی عزیز بلگامی کے تعارف کو آفاقی بنانے میں ایک حصہ رہا ہے۔  یہ ہمارے درمیان رابطہ کا ذریعہ بنا تھا، مرحوم کی خواہش تھی کہ ہم دبی میں ایک عالمی اسلامی مشاعرہ منعقد کریں، جس میں نعیم صدیقی جیسے شعراء کو دعوت دیں، لیکن یہ بیل چڑھ نہ سکی، 1988ء میں اس ناچیز کا بھی جمعیت سے تعلق نہیں رہا، اور جمعیت بھی کچھ ہی عرصہ بعد مرحوم ہوگئی۔ اور یہ بات آئی گئی ہوگئی۔

اس دوران عزیز بلگامی مرحوم کا بھٹکل میں خوب آنا جانا رہا، اور ان کی یہاں خوب پذیرائی ہوئی۔ ایک طویل عرصہ بعد آپ کی ایک دوسری نعت :

دعوت وہدایت کی ایک حسیں شفیق لے کر میرے مصطفی آئے

کفر کے اندھیروں مین نور کا طبق لے کر میرے مصطفی آئے

نے مقبول ہوکر خوب دھوم مچائی تھی۔

مرحوم کی ابتدائی معاشی زندگی اسٹیٹ بنک میں ملازمت میں گذری، لیکن انہیں اس کا شدید احساس تھا، اور انہوں نے چند سال قبل ایک پاکیزہ ذریعہ معاش کی تلاش میں اس ملازمت سے سبکدوشی حاصل کرلی تھی، اور لڑکیوں کی زبیدہ پری یونیورسٹی، اور دوسرے پرائیوٹ اداروں قوت لایموت پر ملازمت اختیار کرکے قناعت پسندانہ زندگی اختیار کرلی تھی۔ اس دوران کچھ عرصہ آپ پر بڑا سخت گذرا۔ آپ نے قرآن کریم کے پیغام کو عام کرنے کے لئے درس قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔

مشاعروں میں شرکت آپ کے لئے پیغام رسانی اور دعوت کا ذریعہ تھی، خوش الحانی اور خوش فکری نے آپ کو مشاعروں کا ایک مقبول شاعر بنا دیا تھا۔

آپ نے عطاء الرحمن ہبلوی پر تحقیقی کتاب  زنجیر دست وپا اور مجموعہ کلام یاد گار چھوڑے۔ یوٹیوب اور میڈیا پر بھی خوب متحرک رہے۔

آپ سے ہماری پہلی اور آخری ملاقات 24 فروری 2017ء کو  بنگلور میں اردو آڈیو ڈاٹ کام کے ایپ کے اجرا کی تقریب کے موقعہ پر ہوئی تھی،حضرت مولانا مفتی اشرف علی باقوی رحمۃ اللہ علیہ سابق امیر شریعت کرنا ٹکا کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والے اس پروگرام میں آپ کی رفاقت میں چند معزز شعراء بھی اس میں شریک ہوئے تھے۔ اور اس نشست میں اپنا کلام پیش کیا تھا۔

مرحوم پاکیزہ خیالات کے حامل  شاعر تھے، آپ کی زندگی میں ایک پیغام اور تڑپ تھی، آپ نے  بے شمار غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں ، مضامین بھی تحریر کئے، لیکن آپ کا اصل امتیاز رحمۃ للعالمین کی شان رحمت اور آپ کی دعوت کو شعر میں ڈھال کر سامعین کے ذہنوں کو متحرک کرنا اور انہیں تڑپانا تھا، اس میں شک نہیں کہ اس مقصد میں وہ بہت کامیاب رہے۔ کیا یہ بات آپ کی مغفرت اور رفع درجات کے لئے کافی نہیں؟، عزیز بلگامی صاحب جس طرح اچانک اس دنیا کر بزم فانی سے اٹھ کر دائمی سفر چلے گئے ہیں، اس کی ٹیس مدتوں محسوس کی جائے گی، اور کرناٹک کے شعر وادب کی فضاؤں میں آپ کا خلا دیر تک  محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ

2025-11-28