Azadi Niswan ka Namuna

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

04:05PM Sun 12 Oct, 2025

آج سے قبل، بہت قبل، دوہزار سال سے بھی قبل، کہتے ہیں، کہ خطّۂ حکمت ودانش، یونان تمدن نشاں کے مضافات ہیں، علاقہ کیپڈوسیاؔ یا ایشیائے کوچک میں، بحراسود کے قریب، دریائے تھرموڈانؔ کے کنارے کنارے، ایک جنگجو قوم آباد تھی۔ کام ہی لڑنا بھڑنا، مارنا اور مرناتھا۔ ایک ایک فنون سپہ گری میں طاق، تیراندازی میں مشّاق، نیزہ بازی میں شہرۂ آفاق، ہمت ومردانگی کی دھاک دُور دور بیٹھی ہوئی، نزدیک ودُور کی ہرقوم اس کے نام سے لرزتی ہوئی……مرداِس ’’جواں مرد‘‘ قوم میں ایک نہ تھا جی!زیادہ وکم کا سوال نہیں، ایک بھی مرد اس ساری قوم میں نہ تھا، صرف عورتیں ہی عورتیں تھیں!آبادی ساری عورتوں ہی کی، عورتیں ہی حاکم اور عورتیں ہی محکوم۔ عورت ہی بادشاہ عورتیں ہی رعایا۔ عورتیں ہی پیدل عورتیں ہی سوار!عمر بھر بغیر شادی بیاہ کے رہتیں، جب بچوں کی ضرورت ’’ملک وقوم‘‘ کو محسوس ہوتی، یہ شیردِل خواتین، پڑوس کے مردانہ ملکوں میں چند روز کے لئے چلی جاتیں، اور جب اولاد پیداہوتی، تو لڑکے سب ضائع کردئیے جاتے، یاغیر علاقوں میں اپنے باپوں کے پاس بھیج دیئے جاتے، اور صرف بچیاں زندہ رکھی جاتیں، وہ ایک خاص نظام کے ماتحت، مردانہ تربیت پاتیں، اور دنیا پر اپنی مردانگی کا سکّہ بٹھادتیں!

انگریزی کتابوں میں قوم کا نام Amozonامیزن آتاہے۔ اسے اُردو میں اپنانا چاہئے تو امیزنی کہہ لیجئے۔ یونانی میں لفظ کے لغوی معنی ہیں ’’بغیر سینہ کے‘‘۔ کلاسیکل ڈکشنری میں اس کی تشریح یہ لکھی ہے، کہ لڑکی جب جوان ہوتی، تو داہنی طر ف کا سینہ داغ داغ کر جلادیاجاتا، تاکہ سیدھے ہاتھ کی سپاہیانہ جنبشوں میں آسانی رہے۔ اسی لئے قوم کانام پڑگیا ’’بغیر سینہ والیاں‘‘!……مقصد گزارش صر ف اس قدر ہے کہ ’’ترقی نسواں‘‘ کا یہ ہنگامہ جو آج بوڑھوں اور بوڑھیوں تک کو بدمست کئے ہوئے ہے، اس میں جدت اور ندرت کا پہلو کون سا ہے؟ دنیا تو اس سے پہلے اِس ’’ترقی‘‘ سے کہیں بڑھے چڑھے منظر دیکھ چکی ہے، عورت مرد پر غالب باربار آآچکی ہے ،ا ور وہ سب کچھ کرگزری ہے جس کے تصور سے اچھے اچھے مرد بھی تھرّا جاتے ہیں، یہ الگ سوال ہے کہ کس قیمت پر، اور اپنی نسائیت کو کتنے سَستے داموں بیچ کرکے، برباد کرکے، ذبح کرکے!

ترقی کے اس میدان میں ، تو ابھی مشرقی عورت، بہت پیچھے ہے، بہت ہی پیچھے ہے۔ اِس معیار سے تو ابھی لندن کی زنانہ پولیس ، اور امریکہ کی زنانہ خفیہ پولیس، اور جرمنی کی حسین جاسوسنیں، اور روس کی زنانہ فون، سب ہی ابھی پستی میں ہیں، تاریکی میں ہیں، حالتِ جمود میں ہیں۔ یہاں تو ابھی ’’ترقی‘‘ و ’’تجدد‘‘ کی کُل کائنات بس اسی قدر ہے نہ، کہ کوئی بڑا سا امتحان پاس کرلیا، اونچی سی ڈگری حاصل کرلی، زنانہ کانفرنسوں میں خطبۂ صدارت کا، یاکسی تجویز پر تقریر کا موقع مل گیا تو اسٹیج کو ہلاڈالا، کونسل یا اسمبلی میں پہونچ ہوگئی، تو ایوان کے درودیوار میں زلزلہ ڈال دہا، زلفیں کٹا ڈالیں، جسم برہنہ کردیا، ’’منع حمل‘‘ کا لٹریچر پڑھ ڈالا، اِس ’’علم ‘ ‘ کو ’’عمل‘‘ میں تبدیل کردیا؟……ابھی بیسویں صدی مسیحی کی’’ امیزنیاں ‘‘پیداکہاں ہوئی ہیں؟ جب ابھی مغرب ہی میں نہیں وجود میں آئی ہیں، تو مشرق میں کہاں سے نمودار ہوسکتی ہیں؟ صائبؔ نے کیا خوب اپنے ایک مقطع میں کہا ہے کہ نظیریؔ کے مرتبہ پر جب عرفیؔ بھی نہ پہونچ سکا، تو صائبؔ بیچارہ کس شمار قطار میں ہے!

صائب چہ خیال ست شوی ہمجو نظیری

عرفیؔ بہ نظیریؔ نہ رسانید سخن را!