Aqli Dalaiil by Abdul Majid Daryabadi
ایک مریض، حاذق الملک ومسیح الملک حکیم اجمل خاں دہلوی کی خدمت میں جاتاہے، حکیم صاحب خاص توجہ وشفقت سے اُسے دیکھتے ہیں، اور اس کے مرض ومزاج سے رتّی رتّی واقف ہو ، اُسے ایک نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ اُن مریض صاحب کو اس کی مطلق قدر نہیں ہوتی، نہ حکیم صاحب کے حذاقتِ فن کی، نہ خاص توجہ وشفقت کی، بلکہ بے دلی اور بے پروائی کے ساتھ نسخہ لئے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں، پھاٹک پر حکیم صاحب کے مکان کا پہرہ دار، ایک گنوار سا آدمی، نہ پڑھا نہ لکھا، نہ طبیبوں کا صحبت یافتہ، ملتاہے۔ یہ مریض صاحب اُس سے پوچھتے ہیں، کہ کیوں جناب، آپ کی رائے عالی میں یہ نسخہ کیساہے؟ وہ بلا سوچے سمجھے، بغیر ادویہ، اور اُن کے اوزان کو سُنے، یوں ہی سرہلاکر کہہ دیتاہے، کہ ہاں اچھاہے۔ مریض صاحب اس کی زبان سے یہ سُن باغ باغ ہوجاتے ہیں اور گھر والوں سے خوش ہوہوکرکہتے ہیں، کہ بڑی بات یہ ہے کہ اس ڈیوڑھی بان نے تصدیق کردی ……آپ ایسے مریض کی سلامتی عقل، وصحتِ دماغ سے متعلق کیا رائے قائم کریں گے؟ ایسے شخص کے، حکیم صاحب کے ساتھ، دعوے اخلاص وعقیدت کو کس حد تک قبول کریں گے؟ خود حکیم صاحب ایسے ناقدرے اور بد مذاق سے کہاں تک خوش رہیں گے؟
ایک امیدوار ملازمت کا بڑی تمناؤں اور آرزوؤں کے بعد نصیب جاگتاہے، حوصلہ اور اندازہ سے بڑھ کر کامیابی یہ ہوتی ہے، کہ کلکٹر اور کمشنر نہیں، لاٹ صاحب کے ہاں باریابی ہوتی ہے۔ ہز اکسلنسی گورنروقت مکّال متوجہ ہوتے ہیں، جو استدعا تھی اُسے بہ تمام وکمال، مع شیء زائد ، منظور کرتے ہیں، اور بکمال عنایت، خود ایک فرمان اپنے دستخط اور سرکاری مُہر کے ساتھ عطافرماتے ہیں۔ اس بدگمان کو اب بھی اپنی کامیابی پر یقین نہیں ہوتا، اپنی خوش نصیبی پر خوشی نہیں ہوتی، اتنے میں لاٹ صاحب کا چپراسی، جو ایک طرف ادب سے دست بستہ کھڑاہواہے، اپنا سرہلا کر اشارہ کرتاہے، کہ ’’ہاں ٹھیک ہے‘‘ معًا ان امیدوار صاحب کی تشویش، جمعیت خاطر سے، بے اطمینانی، اطمینان سے ، اور پریشان، بشاشت سے بدل جاتی ہے، اور گھر آکر اپنے لوگوں سے فرمانے لگتے ہیں، کہ ’’لاٹ صاحب کا فرمان ورمان تو خیر، بڑی بات یہ کہ جس وقت لاٹ صاحب فرمان پر دستخط کررہے تھے، اُن کے جمعدار صاحب کی گردن اور داڑھی ہلی، اور بس میرا دل پورا ہوگیا‘‘……آپ ان بزرگوار کے عقل وفہم، ہوش وخرد سے متعلق کیا اندازہ کرتے ہیں؟ یہ ہیں اس قابل کہ دوبارہ انھیں گورنمنٹ ہاؤس میں گھُسنے بھی دیاجائے؟
دوسروں پر ہنسی ہوچکی۔ اب اپنے کو دیکھئے، سوچئے، ٹٹولئے۔ یہ ہم میں، آپ میں، مذہب وشریعت کے ہر حکم کو ’’عقلی دلائل‘‘ سے سمجھنے کا جو مرض پیدا ہواہے، ان فرضی مثالوں سے ، کچھ کم، قابلِ مضحکہ ہے؟ جو لوگ سرے سے مذہب ہی کے قائل نہیں، یہاں خطاب اُن سے نہیں، اُنھیں دوسرے دلائل سے قائل کیاجائے گا، یہاں مخاطب صرف وہ حضرات ہیں، جو مذہب کو مان چکے ہیں، اپنے کو مسلمان کہتے ہیں ، توحید ورسالت پر ایمان لاچکے ہیں۔ کیا اُن کے اطمینان وتشفی کے لئے یہ کافی اور بالکل کافی نہیں، کہ فلان حکم مذہب کا ہے، شریعت کا ہے، خدا کا یا اُس کے رسول کا ہے؟ کیا کسی مذہبی حکم میں قوت اس سے ذرہ بھر بھی بڑھ جائے گی، کہ عقل ، بھی اس کی تائید کرتی ہے؟ کسی حکم کے مذہبی ہونے ہی میں گفتگو ہو، تو اور بات ہے۔ اس کی جانچ ، پرتال، پرکھ، تول، ہرطرح کی جاسکتی ہے کہ آیا وہ حکم مذہب کا ہے بھی۔ لیکن جب ایک بار اس کا مذہبی ہونا ثابت ہوجائے، تو پھر اب اُس کی تائید میں کسی ’’عقلی‘‘ دلیل کے تلاش کرنے کے معنی سوااس کے اور کیا رہ جاتے ہیں، کہ لاٹ صاحب کے فرمان کے ساتھ، ان کے جمعدار کی داڑھی بھی تو ہلے؟ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے منطقی، فلسفی، حکیم، طبیب، مہندس، مقنّن، کی ’’عقل‘‘ رسول کی ’’نقل‘‘ کے سامنے کچھ بھی وزن رکھتی ہے؟