Apni Fikr. By Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:58AM Wed 12 Jun, 2024

’’نواب ہستنا پور کے حالات آپ نے شاید نہیں سُنے۔ انسان کا ہے کو ہے، جانور ہے پورا جانور۔ بے حیائی کی حد کردی۔ عیاشی سب ہی رئیس روساء کرتے ہیں،مگر یہ تو خرمستیوں میں بالکل اندھا ہوگیاہے، وہ وہ گندی حرکتیں ایجاد کی ہیں، کہ شیطان بھی پناہ مانگ جائے‘‘۔

اور مہاراجہ پاٹلی پتر کو آپ کچھ کم سمجھتے ہیں؟ آپ کے نواب سے بھی چار قدم آگے ہے۔ نواب کو کچھ تو دنیا کی لاج ہے، اور یہ کمبخت تو غیرت کا بالکل گھول کر پی گیاہے۔ باپ ،بھائی، ماں بہن، کسی کی بھی شرم ولحاظ نہیں۔ لوگ کہتے ہیں، کہ رعایا سرکشی پر آمادہ ہے، میں کہتاہوں کہ اب تک اُس کی جان کیسے بچی ہوئی ہے۔ راج بھر میں کسی شریف کی بھی تو عزت وآبرو محفوظ نہیں……ایک مختصر صحبت میں دودوستوں کے درمیان یہ گفتگو ہورہی ہے۔ آٹھ بجے کے بعد صبح ہوئی ہے۔ چائے کا دَور چل رہاہے، گلوریوں پر گلوریاں ، سگرٹ پر سگرٹ پیش ہورہے ہیں، اور دلچسپ ومحبوب موضوع یہ چھڑاہواہے، کہ فلاں راجہ بڑاسیاہ کارہے، فلاں نواب اول درجہ کا بدمعاش ہے، فلاں رئیس، انسان کی صورت میں شیطان ہے!

یہ گفتگو کیا کوئی نئی اور انوکھی ہے؟ کہاں یہ تذکرے نہیں ہوتے؟ کون سی صحبتیں اِن چرچوں سے خالی ہیں؟ کون سی محفل میں انھیں طریقوں سے گرمی ِ محفل کا سامان نہیں ہوتا؟ اللہ اللہ! انسان بھی خود فریبی میں کسقدر مشاق ہے!

گویا سارے عیب رئیسوں اور نوابوں ، راجوں مہراجوں کے حصہ میں آگئے، اور ہم بالکل نیک ہیں اور پاک، متقی ، اور پارسا، پیدائشی پاکباز اور فطرۃً محتاط۔ دوسروں کی خبر تو خدا کو۔ لیکن کم ازکم اپنا حال تو اپنے اورپر خوب روشن ہے۔ کون سا گناہ ایسا اُٹھ رہا، جس پر قدرت تھی، اور پھر اُسے اللہ کے ڈرسے چھوڑ دیا ہو؟ کون سی بدکاری ایسی تھی، جسے چاہتے ، تو بے کھٹکے آسانی سے کرگزرتے، لیکن خشیت الہی مانع آئی؟ نامۂ اعمال کے سارے ورق، اول سے آخرتک، پیش نظر ہیں، کون سے داغ ہیں، جو آئینہ میں موجود نہیں؟ کیا کیا حرکتیں نہیں کی ہیں؟ کیسی کیسی سیاہیاں، اپنے ہاتھوں اپنے چہرہ پر نہیں چڑھائیں؟ کن کن گندے تالابوں میں غوطے نہیں لگائے؟ بیہودگی کے کیسے کیسے غاروں میں نہیں پھاندے؟ پھر جن گناہوں سے بچ رہے، کیا اپنے ارادہ، اپنے اختیار، اپنی خوشی سے بچے! جن چیزوں پر بس ہی نہ چلا، اُنھیں کیونکر کر گزرتے ؟ جہاں تک دسترس ہی نہ ہوسکا، وہاں چُپ ہوکر بیٹھ رہنے کے سوا چارہ کیا تھا؟ کیا اس مجبوری اور معذوری، بے بسی اور بے بساطی کا نام نیکی اور پارسائی، پاکبازی اور پاک وضعی ہے؟ شاعر اکبرؔ نے کیا جھوٹ کہاہے ؎

آمادگی مجھے تو رہی ہر گناہ پر

فضل خدا سے بت ہی نہیں آئے راہ پر!

دوسرا مصرعہ غضب کا ہے۔ جس بے زری اور کسمپرسی نے صدہا معاصی اور ہزارہا بدکاریوں سے محفوظ رکھا، اسے اگر تمامتر ’’فضل خدا‘‘ نہ کہئے، تو اور کیا کہئے۔ تخیل وتصور کے وسیع میدان میں ، خواہش وآرزو کے غیرمحدود عالم میں، آج بھی کوئی بات، کسی بڑی سے بڑی بیہودگی کی اُٹھ رہتی ہے؟ پھر اگر عمل میں ان کی نوبت نہیں آتی، تو سوا بدنامی کے ڈر، رسوائی کے خوف، برادری کے طعن، پولیس کی دہشت، ملامت خلق کے دھڑکے، کے اور کون سی شے رو ک تھام کئے ہوئے ہے؟ وہی روپیہ کی ریل پیل اور وہی مواخذہ کی طرف سے بے پروائی، وہی اختیارات کی وسعت، اور وہی طاقت وحکومت، وہی ہر طرف سے غرضمندوں اور خوشامدیوں کا مجمع اور وہی اہل حق اور اہل اللہ سے بے تعلقی، جو آج دوسروں کو حاصل ہے، اگر ہمارے حصہ میں آجائے، تو ہم تو دنیا میں بد اعمالیوں کا وہ ’’ریکارڈ‘‘ قائم کرجائیں، کہ شاید شیطان بھی خوش ہوہوکر تالیاں بجائے، اور اُچھلنے کودنے لگ جائے!