ْAnbiya Ki Dawat... Abdul Majid Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

11:12PM Mon 29 Jan, 2024

سورۂ یٓس میں، ایک شخص اپنے ہم قوموں سے، وقت کے پیغمبروں پر ایمان لانے کی سفارش کرتاہے، اور پیغمبروں کا وصف مشترک یہ بتاتاہے،

قال یاقوم اتبعوا المرسلین اتبعوا مَن لا یسألکم أجرًا۔

 کہ یہ وہ حضرات ہیں ، جو اپنی شبانہ روز کی مشغولیت کی کوئی اُجرت نہیں مانگتے، اپنی دن رات کی خدماتِ دینی کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے۔ اسی طرح سورۂ شعراءؔمیں حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ، حضرت لوطؑ، حضرت شعیبؑ، پانچ انبیاء جلیل القدر کی زبان سے یہ قول نقل فرمایاگیاہے،

وما أسألکم علیہ من أجر اِن أجری الا علی رب العالمین۔

کہ میں تم لوگوں سے تو تبلیغ رسالت پر کسی طرح کا معاوضہ نہیںچاہتا، مجھے انعام جوکچھ ملتاہے، پروردگار عالم کے ہاں سے ملے گا۔

اور یہی مضمون بکثرت دوسری آیتوں میں بھی وارد ہواہے۔ مثلًا قل ما أسألکم علیہ من أجر۔ قل ما سألتکم من أجر۔ یا قوم لا أسألکم علیہ أجرًا۔ أم تسألہم أجرًا فہم من مغرمٍ مثقلون۔ وغیرہا۔

دنیا کی سب سے زیادہ معزز ہستیوں کا طریقِ کار آپ نے دیکھ لیا۔ نہ بڑی بڑی فیسیں، نہ محنتانے، نہ نذرانے، نہ بڑے بڑے مشاہرے، نہ جاگیریں، نہ جائدادیں۔ نہ زمینداری ،نہ بڑے بڑے تعلقے۔ نہ تجارتی کوٹھیاں نہ بڑے بڑے فرم، اور کمپنیاں، نہ ساہوکاروں کی ہان بَہی کھاتے، نہ بینک میں بھاری بھاری ’ڈپازٹ‘۔ جس شغل میں رات دن صبح وشام لگے ہوئے اس کے عوض میں آمدنی ہزاروں کی توکیا، سیکڑوں کی، دہائیوں کی، اکائیوں کی بھی نہیں! اگرآپ محض زبان ہی سے نہیں، دل سے بھی انھیں حضرات کو سب سے زیادہ معزز سمجھ رہے ہیں، اگرآپ انھیں کی انتہائی عزت کے قائل ہیں، تو قدرۃً آپ کے دل میں بھی ولولہ انھیں کے نقش قدم پر چلنے کا، انھیں کی راہ اختیار کرنے کا پیدا ہوناچاہئے۔

لیکن اس کے برعکس، آج دنیا نے عزت وناموری کے ساتھ، کن کن ناموں کو چمکاکر آپ کے سامنے پیش کررکھاہے؟ فلاں بیرسٹر صاحب اور فلاں وکیل صاحب، جو ایک ایک پیشی کی’’فیس‘‘ میں سیکڑوں ہزاروں لے لیتے ہیں، جو صرف کاغذاتِ مقدمہ دیکھنے اور مشورہ دینے میں ہزاروں کمالیتے ہیں۔ فلاں ڈاکٹر صاحب اور فلاں حکیم صاحب، جو ایک ایک Call میں اپنی جبیں بھر بھر لیتے ہیں، جو ایک ایک آپریشن میں مالامال ہوجاتے ہیں۔ فلاں جج اور فلاں کمشنر، فلاں منسٹر اور فلاں ایکزیکٹوکونسل جن کی اتنی اتنی تنخواہیں ہیں۔ فلاں رئیس اور فلاں زمیندار جن کی لاکھوں کی آمدنیاں ہیں۔ اور خیر یہ تو پھر دنیوی پیشے، اور کھُلے خزانے ’’پیٹ کے دھندے‘‘ ہیں، فلاں شاہ صاحب اور فلاں مولوی صاحب، جن کے نذرانے اور جن کے ہاں کے ’’چڑھاوے‘‘ سُن سُن کردنیا داروں کو بھی رشک آجاتاہے!……اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھئے کہ دل میں اُمنگیں کس کی روش پر چلنے کی ہیں۔ انبیاء کرام کے طریق پر ، یا آج کے معززین اور اہل وجاہت کی راہ پر؟ زمانہ نے آپ کی نظر میں خوش آیند اور قابلِ تقلید کس کو بنارکھاہے۔ ’’اجر‘‘ سے بھاگنے والوں کو یا ’’اجر‘‘ پر دَوڑ دَوڑ کر گرنے والوں کو؟