Allama Dr. Muhammad Hameedullah By Masud Ahmed Barkati

Masud Ahmed Barkati

Published in - Yadaun Kay Chiragh

02:16AM Sun 17 Dec, 2023

علامہ ڈاکٹر محمد حمید الله۔۔۔ تحریر: مسعود احمد برکاتی مدیر ہمدرد نہال کراچی

 

(*ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی  مورخہ ۱۷ / دسمبر  ۲۰۰۲ء میں رحلت   پائے ( ۲۱) سال ہورہے ہیں، اس دوران آپ کی شخصیت اور خدمات پر نہ جانے کتنے مقالات  لکھے گئے اور سیمینار منعقد ہوئے، اور مجموعے شائع ہوئے، ان کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، ان میں سے کئی سارے اس ناچیز کی نظر سے گذرے ، کئی  سارے نہیں گذرے، لیکن  ریاست ٹونک کی علمی وراثت کے امین حکیم مسعود احمد برکاتی مرحوم نےڈاکٹر صاحب کی رحلت کے معاً بعد  مرحوم مجلہ  ہمدر د نونہال کراچی میں جو تاثراتی مضمون لکھا تھا، شاید  ندرت ، معلومات اور تاثر میں کوئی اور مضمون اس کے مقام   تک نہیں پہنچتا، یہ مضمون شاہد علی خان مرحوم نے  ایک اور مرحوم  مجلہ کتاب نما دہلی میں اس کے دوسرے ہی مہینے کے شمارے میں شائع کیا تھا، اس وقت یہ دونوں مجلات جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے کتب خانے میں ہماری نظر سے گذرے تھے، اور گذشتہ  ( ۲۱) سال سے اس مضمون کی ہمیں تلاش تھی ، خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ مضمون ہمیں ڈاکٹر صاحب  سے متعلق کسی بھی  مجموعےمیں ہمیں نظر نہیں آیا، اس ہفتہ اتفاق سے  یہ مضمون    ایک ا اور مرحوم مجلہ افکار کراچی کے  اپریل  ۲۰۰۳ء  کے شمارے میں منکشف ہوا، اسے ہم ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں نذارانہ عقیدت کے  طور پر بھٹکلیس ڈاٹ کام کے توسط سے   (۲۱ ) سال تک فراموش ہونے کے بعد  ایک  علمی  وادبی ورثے کی حیثیت سے  پیش کررہے ہیں۔ امید کہ احباب  اس پر اپنے تاثرات کے اظہار میں بخل نہیں کریں گے۔ عبد المتین منیری*)

غالباً ۱۹۴۸ء کی یعنی آج سے آدھی صدی پہلے کی بات ہے جب حیدر آباد سندھ میں پہلی بار ڈاکٹرمحمد حمید اللہ صاحب کو دیکھا تھا۔ کوئی علمی تقریب تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی اس جلسے میں تقریر فرمائی تھی، جس نے مجھے متاثر نہیں کیا تھا۔ لڑکپن تھا۔ کم علمی تھی جو ابھی تک باقی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب کم علمی کا کچھ احساس ہو گیا ہے، لیکن اعتراف جیسا ہونا چاہیے ویسا اب بھی نہیں ہے۔ بہر حال علامہ ندوی کی تقریر سے متاثر نہ ہونے کی وجہ شاید ان کا سنجیدہ، دھیما لہجہ اور مقررانہ یا خطیبانہ انداز کا نہ ہونا تھا۔ اس محفل میں ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کو بھی دیکھا ، ان کی طرف دل کھنچا۔ معلوم ہوا کہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ایک تعلیمات اسلامی بورڈ بنایا ہے، جس کے صدر علامہ سید سلیمان ندوی ہیں ۔ مولانا مفتی محمد شفیع، ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور مولانا ظفر احمد انصاری اس کے ارکان ہیں ۔ اس بورڈ کا کام قانون سازی میں دینی رہنمائی کرنا ہے۔ کچھ ہی دن میں پتا چلا کہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب تو پاکستان سے چلے گئے۔ کہا یہ گیا کہ ان کو ارباب بست و کشاد دستور سازی میں سنجیدہ نظر نہیں آئے اور ڈاکٹر صاحب کو یہاں رہنا بے مصرف معلوم ہوا۔ ضیاع وقت ان کو بھی پسند نہیں رہا، جبھی تو انھوں نے زندگی میں اتنا کام کیا کہ ہمارے ہاں تو ادارے بھی نہیں کرتے ۔ انھوں نے زندگی کا بہت بڑا حصہ یورپ میں گزارا اور ایک سچے مسلمان کا نمونہ پیش کیا۔ ان کی زندگی ، ان کی دیانت، امانت ، ان کی سادگی ، بے نیازی اور قول و عمل میں یکسانیت نے مغرب میں اللہ سے مسلمان کا، ایک سچے عالم کا جو نمونہ پیش کیا ، اس کا اثر تھا کہ ہزاروں فرانسیسیوں نے اسلام کو عملی طور پر سمجھا اور قبول کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ کارنامہ بھی غیر معمولی اور قابل تحسین ہے۔

علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب واقعی عالم تھے، جس کا اظہار ان کی تصانیف تو ہیں ہی، لیکن اس کا ایک عملی اظہار ان کا انکسار تھا۔ انکسار علم کی لازمی علامت ہے۔ ان کے انکسار اور فقر و بے نیازی کی وجہ سے یہاں عموما تعلیم یافتہ لوگ بھی ان کی زندگی کے حالات ، ان کے علمی مشاغل ، ان کی خدمات یہاں تک کہ ان کی تصنیفات، تالیفات، تراجم اور مرتبات کی اہمیت سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔ وجہ یہ بھی ہے کہ علم کو نہ ہم نے اپنی قدر اول بنایا نہ اہل علم کی کفش برداری ہمارا امتیاز ہے۔ ہماری زندگی کا محور حکومت ہو سکتی ہے، دولت ہو سکتی ہے اور شہرت ہو سکتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں علم و کمال کو اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوسکا۔

ڈاکٹر صاحب کے کام سے متعلق ہماری نا واقفیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ شہرت پسند تھے اور نہ اقتدار پرست ۔ ان کی زندگی ، ان کی مصروفیات اور ان کے کارناموں کے متعلق نہ اخبارات میں کچھ آتا تھا، نہ کبھی ان کی کسی کتاب کی تقریب اجرا ہوئی۔ اصل میں دور کی نظر اور قریب کی نظر کا مسئلہ ہے۔ شہرت عام اور بقائے دوام کی بات ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ زندگی بھر خاموشی ، یکسوئی لگن اور بے نفسی کے ساتھ علم کے ذریعے سے دین اور علم کی خدمت کرتے رہے۔ ستائش اور صلے کو انھوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ نمود و نمائش میں وقت ضائع نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے مداحوں اور عقیدت مندوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ لکھا کہ مجھے اپنی سوانح لکھوانے سے چڑھ ہے ۔ انھوں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ "حمید اللہ نامی " فاضل" ابھی پیدا نہیں ہوا۔ اس کی سوانح عمری کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کریں۔"

کوئی بڑا کام یکسوئی کے بغیر نہیں ہوتا۔ یکسوئی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب دل و دماغ کی تمام قوتیں کسی ایک مقصد میں لگادی جائیں اور انسان منزل پر نظریں مرتکز کر کے ادھر ادھر دیکھے بغیر قدم جما کر استقلال کے ساتھ چلتا رہے۔ ڈاکٹر صاحب یکسوئی میں خلل ڈالنے والی ہر بات سے بحسن و خوبی بچ نکلتے تھے۔ کئی سال ہوئے ایک بار میں نے رسالہ ہمدرد نونہال کا خاص نمبر ان کی خدمت میں بھجوادی ۔ کچھ دن بعد ان کا گرامی نامہ ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کارڈ میں لکھا کہ کچھ دن پہلے آپ کا رسالہ ملا تھا۔ میں اس کو پڑھے بغیر رکھ نہ سکا، اس لیے التجا ہے کہ آئندہ یہ نہ بھیجا جائے ، توجہ بٹتی ہے اور میرے کام میں خلل پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اِن ڈائرکٹ یا بالواسطہ حوصلہ افزائی کو پڑھ کر آئندہ رسالہ ڈاکٹر صاحب کو نہ بھیجنے کے ارادے پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ حکیم محمد سعید شہید نے خط پڑھ کر کہا تھا کہ اس سے بڑھ کر ہمدرد نونہال کی تحسین نہیں ہو سکتی، لیکن ڈاکٹر صاحب کی خواہش کا احترام اور ان کے کاموں کی اہمیت و عظمت کے احساس نے اس جرات کی اجازت نہیں دی کہ رسالہ ان کو پھر بھیجوں ۔

ڈاکٹر صاحب نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے لیے مقصد منتخب کیا تھا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بھی ایک خاص راستہ اور انداز اختیار کیا۔ یہ راستہ بھی منفرد تھا۔ علم میں ڈوبا ہوا یہ انسان جیسی زندگی گزار گیا اس کی مثال بیسویں صدی میں تو مل نہیں سکتی، پچھلی صدیوں میں ڈھونڈنی پڑے گی ۔ بیسویں صدی میں ایسی زندگی گزارنا ڈاکٹر حمید اللہ کا منفردا متیاز ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ اپنی خاکستر ایسی چنگاریوں سے یکسر خالی ہو۔ اسی بیسویں صدی کے نصف اول میں مولانا حسرت موہانی بھی اپنے نقوش قدم چھوڑ گئے ہیں ۔ حسرت کی سادگی ، بے نفسی اور مشقت پسندی نے جنوبی ایشیا میں ہماری تاریخ کو ایک منور باب دیا لیکن ڈاکٹر حمید اللہ نے بیسویں صدی کا نصف آخر یورپ میں بسر کیا اور عہد جدید کی تمام سہولتوں اور راحتوں کے باوجود اور پیرس جیسے شہر کی رونقوں اور ترقیوں کے باوصف اپنے انداز اور ڈھرے پر شب و روز گزارے اور بڑی کامیابی اور استقلال کے ساتھ گزارے۔ تلاش و تحقیق کی منفرد مثالیں قائم کیں، اسلامی علوم کے آفاق کو وسعتیں عطا کیں۔

ڈاکٹر صاحب نے سکونت کے لیے کشادہ کمروں ، خوب صورت اور پر آسائش فرنیچر ، کتابوں کی ترتیب و تنظیم کے لیے وسیع الماریوں کی ناگزیریت کو اپنے عمل سے غلط ثابت کر دیا۔ ایک پرانی عمارت کی چوتھی منزل پر ایک مختصر سے فلیٹ میں پہنچنے کے لیے برقی آلات کے سہارے سے بے نیاز ایک معمر منحنی انسان کا عزم ہی کام آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اسی گوشتہ عافیت میں رہتے، سوتے بھی تھے، پڑھتے لکھتے بھی تھے اور اسلامی ادب کی ثروت میں حیرت انگیز اضافے بھی کرتے تھے۔ ان کا کوئی معاون بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ کھانا پکانے کے لیے بھی کوئی ملازم نہیں تھا۔ موبائل فون کے اس دور میں عام فون سے بھی ان کا گھر محروم تھا۔ کار کا تو کوئی سوال نہیں ۔ آنا جانا پیدل ہوتا تھایا زیر زمین میٹرو کام آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ہر خط کا جواب دیتے تھے۔ کارڈ پر خط لکھتے تھے۔ کوئی صاحب علم مہمان پیرس آتا تو کوشش کر کے خود اس کے پاس پہنچ جاتے۔ مہمان نوازی میں بھی پورے مسلمان تھے۔ اہل علم اور ضرورت مندوں کی مدد اس طرح ہوتی تھی کہ واقعی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب عمر بھر تنہار ہے، ازدواجی زندگی سے نا آشنا لیکن اس کی کوئی توجیہ و تاویل نہیں کرتے تھے۔ اس سنت کی پیروی نہ کر سکنے کا اعتراف فرماتے تھے۔ احتیاط کے تقاضے کے تحت پیرس میں گوشت کھانا ترک کر دیا تھا۔ ربع صدی سے زیادہ تارک اللحم رہے مگر صحت مند اور فعال بھی ۔ ڈاکٹر صاحب کی فعال زندگی بھی اس کا ثبوت ہے کہ حرکت اور سادہ غذا میں صحت ہے۔ ڈاکٹر صاحب تصویر کھینچنے، کھنچوانے کو دینی لحاظ سے صحیح نہیں سمجھتے تھے، اور ان کا عمل بھی اس کے مطابق تھا۔ ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کوئی اُن کی تصویر نہ کھینچے۔ ۱۹۸۲ء میں پیرس میں ماہ نامہ یونیسکو کورئیر کے ایڈیٹروں کی میٹنگ تھی ۔ یونیسکو کے اس تعلیمی، تہذیبی اور سائنسی عالمی رسالے کے پوری دنیا سے دو درجن سے زیادہ ایڈیشن مختلف زبانوں میں نکلتے ہیں ۔ ۱۹۷۷ء سے اس کا اردو ایڈیشن "یونیسکو پیامی" کے نام سے ہمدرد فاؤنڈیشن ، حکومت پاکستان کے تعاون سے شائع کرتا تھا۔ (لیکن افسوس کہ حکومت نے ۱۹۹۰ء میں ہم کو اردو اور علم کی اس خدمت سے روک دیا ، کیوں کہ یونیسکو سے متعلق کوئی کام حکومت کے واسطے اور اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ ) یونیسکو پیامی کے مدیر حکیم محمد سعید تھے اور میں شریک مدیر ۔ ہم ایڈیٹروں کی اس میٹنگ میں شرکت کے لیے پیرس گئے تھے اور ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب دو بار ملنے ہوٹل تشریف لائے ۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ مجھے خیال آیا کہ اس لمحے کو محفوظ کر لیا جائے ۔ میں ڈاکٹر صاحب اور حکیم صاحب کو باتیں کرتا چھوڑ کر اپنے کمرے سے کیمرا لے آیا۔ بٹن دبانے ہی والا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے دیکھ لیا اور اپنا ہا تھ اپنے چہرے کے سامنے کر لیا۔ حکیم صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ یہ غیر شرعی حرکت ہے لیکن کیمرا اپنا کام کر چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا چہرہ آدھا چھپا ہوا ہے لیکن یہ تصویر میرے سفرنامے دو مسافر دو ملک میں محفوظ ہوگئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے اپنے دور حکومت میں ڈاکٹر صاحب سے عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی خدمت کرنی چاہی ۔ ڈاکٹر صاحب میاں نواز شریف کی دعوت پر چند دن کے لیے ۱۹۹۲ء میں پاکستان آئے بھی، لیکن انھوں نے یہاں مستقل قیام اور کسی قسم کے سرکاری تعاون کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ حکومت سے وابستہ ہونے کا مطلب نوکر شاہی کی گرفت میں آنا ہے جس کے بعد آزادانہ علمی کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب پیرس میں رہ کر جس طرح اپنی مرضی اور اپنے انداز کی زندگی گزار رہے تھے اس کے نتیجے میں انھوں نے قابل رشک تحقیقی تصنیفی ، تدریسی اور تبلیغی کام کیے۔ وہ کہتے تھے کہ پاریس میں بڑے بڑے کتب خانے ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد میں ہر موضوع پر اور ہر زبان میں کتابیں ہیں جو پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں نہیں ۔ انھوں نے ایک بار یہ بھی لکھا کہ "میرا پاکستان آبسنا بے معنی ہے۔ میری اپنی تالیفیں سات زبانوں میں ہیں اور یوں مزید کئی زبانوں میں پڑھ لیتا ہوں ، اس لیے علمی کام میں بڑی سہولت ہے ۔" ( ڈاکٹر صاحب پیرس کو اپنے خطوط میں پاریس ہی لکھا کرتے تھے ) ۔

میرے خیال میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی زندگی کو ایک طویل مراقبہ کہنا چاہیے جو انھوں نے دین اور علم کے لیے کیا اور مراقبے سے انہاک اور استغراق نے ہی اُن سے غیر معمولی علمی کارنامے انجام دلوائے ۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی اپنی تصانیف و تالیفات کی صحیح تعداد یاد نہیں تھی۔ کسی خط میں انھوں نے اپنی کتابوں کی تعداد ۱۹۴ بتائی ہے اور کہیں کچھ اور۔ لیکن ضرورت ہے کہ اب اس پر پوری توجہ سے کام کیا جائے اور ان کی جملہ تخلیقات کی فہرست بنائی جائے ۔۱۱۔ اکتوبر ۱۹۹۵ ء کے خط میں انھوں نے مظہر ممتاز قریشی صاحب کو لکھا تھا ” میری اپنی پرائیوٹ فہرست مطبوعات میں ۹۵۰ (نوسو پچاس ) مقالے مندرج ہیں اور ۱۷۱کتابیں ہیں، جن میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ میں صرف شریک مولف ہوں ۔“

اردو میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی چند کتا بیں ہیں لیکن ان میں ہر کتاب وقیع اور منفرد ہے۔ ان کتابوں کے نام یہ ہیں ۔ (۱) قانون شهادت ( ۱۹۴۴ء ) (۲) جدید قانون بین الممالک کا آغاز (۱۹۴۵ء ۔ ترجمہ ہے ) (۳) رسول اکرم کی سیاسی زندگی (۴) عہد نبوی میں نظام حکمرانی (۵) عہد نبوی کے میدانِ جنگ (۶) سلطنتوں کے باہمی برتاؤ کا دستور العمل (۷) صحیفہ ہمام بن منبہ ( تدوین )  (۸) خطبات بہاول پور۔

 آخری کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ خطبات ہیں جو اسلامی یونیورسٹی بہاول پور کی دعوت پر ڈاکٹر صاحب نے دیے تھے۔ "خطبات بہاول پور" سیرت طیبہ پر غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے عمر بھر کے مطالعے کا نچوڑ ہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے "خطبات مدراس" کے بعد یہ خطبات بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر افضل اقبال نے کر دیا ہے۔ اردو کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف عربی ، انگریزی ، فرانسیسی اور ترکی میں بھی ہیں۔ فرانسیسی میں قرآن حکیم کے مکمل ترجمے اور سیرت طیبہ پر دو جلدوں میں کتاب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فرانسیسی ترجمہ قرآن کے ۱۵ ۔ ایڈیشن شائع ہوئے۔ قرآن کا جرمن زبان میں ترجمہ پورا نہ کر سکے۔

اتنی بلند معیار محققانہ اور وقیع کتابوں کے مصنف ، مولف اور مترجم کو اس کی نگارشات کا اتنا معاوضہ تو ملنا چاہیے تھا کہ وہ معاش سے بے فکر ہو کر پر آسائش زندگی گزارتے ۔ خصوصاً مغرب میں مصنفوں کو معقول حق تصنیف ملنے کی روایت ملتی ہے، لیکن حیرت کی اور بظاہر نا قابل فہم بات ہے کہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو ان کے قلم نے کچھ نہ دیا۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ "مجھے اپنی مطبوعات میں سے کسی پر بھی رائلٹی ایک پائی کی بھی نہیں ملتی ۔" اور علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ جیسے سچے ، کھرے اور بے غرض انسان کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب پیرس کے مشہور سائنسی ریسرچ سنٹر سے کوئی ۲۵ برس وابستہ رہے اور وہی ان کی معاش کا واحد ذریعہ تھا۔ ۱۹۷۸ ء میں رٹائرمنٹ کے بعد اسی ادارے سے وظیفہ یاب ہو گئے ، جس سے وہ اپنی سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ ۱۹۹۳ء میں فرانسیسی حکومت نے اپنے ملازمین اور وظیفہ خواروں کی تنخواہوں میں تخفیف کی تو ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ اور زیادہ تنگ ہو گیا۔ ان کے الفاظ ہیں "مجھ کم معاش کے لیے یہ ایک شدید دکھ ہے۔ اللہ مالک ہے ۔" لیکن اس کم معاشی میں بھی ڈاکٹر صاحب کی دُھن میں فرق نہیں آیا۔ قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا لیکن عمر کا آخر اثر ہوتا ہے۔ صحت میں بھی فرق آنے لگا تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے نام خطوط میں اس کا اظہار کرنے لگے تھے کہ بیمار ہوں ، بہت تھکا ہوا ہوں۔ علاج جاری ہے۔ ایک باران کو آپریشن کے لیے ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔ ایک بار مثانے کی بیماری کی وجہ سے ڈھائی مہینے شفا خانے میں رہنا پڑا لیکن بیماری سے پھر بھی نجات نہیں ملی۔ آخران کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا کہ کسی نے ان کی چیک بک چُرالی اور کہنا چاہیے کہ ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ رہی ۔ ان کی عمر بھر کی عادت یہ رہی کہ لوگوں کی مدد کرتے تھے لیکن اپنے لیے کسی سے کبھی قرض بھی نہیں لیا۔ اب نوبت یہ پہنچ گئی تھی کہ کھانے کو کچھ نہ تھا اور کئی دن بھوکے پیاسے رہ کر آخر کمزوری سے نڈھال ہو کر گر گئے ۔ ہسپتال پہنچائے گئے اور پھر آخر کار ان کے بھائی کی پوتی فلوریڈا (امریکا) سے آکر ان کو اپنے ساتھ لے گئیں ۔ کئی سال بستر پر گزار کر آخر ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی ایک تاریخ چھوڑ گئے۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء (۱۳۲۶ ہجری ) حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مفتی ابومحمد خلیل بھی علمی مزاج کے آدمی تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے مدرسہ نظامیہ سے مولوی کامل کا امتحان پاس کیا، پھر جامعہ عثمانیہ سے بی اے، ایل ایل بی ، اور ایم اے کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی ۔ اس کے بعد بون یونیورسٹی ( جرمنی ) سے ڈی فل کیا اور سور بون یونی ورسٹی (فرانس) سے ڈی لٹ کی ڈگری لی۔ وطن واپس آکر جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات میں پڑھانے لگے۔ سقوط حیدر آباد کے بعد پیرس منتقل ہو گئے اور پھر وہیں کے ہور ہے۔

اچھی زندگی گزار نے والے موت کو خیر کی قوت سے زیر کر لیتے ہیں۔ جسمانی وجود ختم ہونے کے بعد وہ زندہ جاوید ہو جاتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے اس عارضی زندگی کو اہمیت نہیں دی بلکہ انسانوں کی اخلاقی اور دینی ثروت میں اضافے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔ کسی نامور علمی شخصیت کے گزر جانے پر اکثر کہا جاتا ہے کہ علم کا آفتاب غروب ہو گیا لیکن دیکھا جائے تو علم کا آفتاب کبھی غروب نہیں ہوتا ، بلکہ اس کی حرارت میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ جس شخصیت کی رحلت پر ہم ایسے الفاظ کہتے ہیں ، دراصل اس شخصیت کا کارنامہ ہی یہ ہوتا ہے کہ اس نے علم کی روشنی کو مزید پھیلایا اور بڑھایا۔ علامہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب اپنی تقریباً ایک صدی کی زندگی میں اپنی گراں قدر تصانیف کے ذریعے سے علم کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ کرتے رہے۔