Ahmed Gharib Seth. Muhammad Siddiq Maimani

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

05:16PM Fri 5 Jul, 2024

احمد غریب مرحوم۔۔۔ تحریر: محمد صدیق المیمنی

صدق جدید لکھنؤ۔ 11؍اگست 1967ء

 (چند روز قبل انجمن خدام النبی ۔ صابو صدیق مسافر خانہ۔ ممبئی کے سابق جنرل سکریٹری اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے محسن اور عظیم خادم احمد غریب سیٹھ مرحوم کا تذکرہ آپ علم وکتاب گروپ پر ہوا تھا، اور احباب نے آپ کی زندگی پر روشنی ڈالنے والے مضامین کی اشاعت کی شدید خواہش کا اظہار کیا تھا، اتفاق سے مولانا عبد الماجد دریابادی کے ہفت روزہ صدیق جدید لکھنو کے شمارہ مورخہ ۱۱ اگست 1967ء احمد غریب سیٹھ کی رحلت پر آپ کے چھوٹے بھائی محمد صدیق المیمنی کی ایک تحریر نظر سے گذری جسے احباب کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ عبد المتین منیری)

کچھ روز ہوئے ضروری اشتغال کی وجہ سے کسی وجہ سے یہاں آیا ہوا تھا۔ ابھی خدمت والا میں عریضہ ارسال کرنے کا ارادہ تھا کہ کل صبح یہ ہوشربا اور انتہائی الم انگیز خبر آئی کہ برا در بزرگ بھائی احمد غریب شنبہ کی رات کو گیارہ بجے کے قریب اچانک اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اور داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ابھی دونوں بھائیوں کو گزرے ہوئے وقت ہی کیا ہوا تھا اور والدہ مکرمہ کی جدائی کا غم والم تو ہنوز تازہ ہی تھا کہ یہ آخری زبردست سایہ و سہا را بھی سر سے اٹھ گیا ۔ آج بھی انھیں مرحوم کہتے ہوئے دل دھڑکتا اور تڑپتا ہے اب تو نا چیز کا کوئی نہ رہا لیکن مشیت الہی کے سامنے بندہ ناچیز کو سر تسلیم خم کئے بغیر چارہ کار ہی کیا ہے ۔ آپ کے دل کو بھی بے انتہا صدمہ پہونچا ہو گا آپ کے دل میں جو ان کے لئے شفقت و محبت وقعت و منزلت تھی اور ان کے دل میں آپ کے لئے بے انتہا عزت و عقیدت تھی اس کے پیش نظر آپ کو بھی بےشک بے حد رنج ہوا ہوگا، فی الحقیقت وہ تو ہزاروں دوستوں اور شیدائیوں اور احباب و رفقا کو داغ مفار دے گئے۔

  زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ خلق خدا کی خدمت میں بسر کر گئے۔ ہزاروں انسانوں کی غمگساری و دل جوئی فرمائی مکان سےدکان تک جاتے تو کئی لوگوں کو کام بتاتے جاتے گو یا خدمت ان کی تلاش میں اور وہ خدمت کی تلاش میں رہتے ۔ متعد د مسجدوں ،ٹرسٹوں ،یتیم خانوں، مسافرخانوں، اسکولوں ،ہسپتالوں، جماعت خانوں کے ٹرسٹی اور صدر رہے، جس ادارہ میں لئے گئے اسے اپنی خداداد صلاحیت وللہیت کی وجہ سے پر رونق اور پر فیض بنادیا بقول آپ کے تو اخلاص کے پیکر ہی تھے، بے شک جذبہ خلوص ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، اپنے عزیز ووقت، دولت اور صحت کو اس قسم کی دینی سماجی تعلیمی اور قومی ٹھوس خدمتوں پر صحیح معنی پر قربان کر دیا آج ان قومی و ملی اداروں کے در و دیوارو نقش ونگاردیرپا یادگار ہیں۔ ان کی مخلصانہ گراں قدر خدمات کی اور بھی زندہ جاوید مثالیں ہیں۔ ان کے حق میں صدقات جاریہ کی ۔

  اللہ اور اللہ کے پیارے رسولؐ کے معززمہمان حجاج کرام کی ان کی والہانہ مفید خدمات تو بے مثل اور ہمہ گیر ہیں ہے ،حج، حجاج کرام اور حرمین شریفین تو ایک رشک آمیز اور ولولہ انگیز لگاؤ اور شغف تھا، حج پر حج خود کرتے گئے افراد کنبہ خویش و اقارب اور ہزاروں مسلمانوں کو حج کراتے بھی گئے اور ان مقدس مقامات پر سیکڑوں بندگان خدا کی مقبول اور دلی دعاؤں کے لئے اپنے آپ کو مستحق بناتے گئے، چھوٹے بڑے، امیر و غریب کے دلوں میں اپنا ایک ایسا مقام بنا لیا تھا اور ایسا وسیع حلقہ اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا کہ ان کی بات ماننے اور ان کے سپردہ کردہ کام بجا لانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھتے تھے ۔

  ماشاء اللہ بہت معاملہ فہم درد مند مرد مومن تھے اخلاص وایثارکا اور درود سوز کے مصداق، قادر مطلق نے ایک بڑاکمال انھیں یہ عطا فرمایا تھا کہ بیک وقت تین مشکل کام انجام دیتے تھے فون پر بات بھی کر رہے ہیں حساب کا جمع و تفریق بھی برق اندازی سے جاری ہے اور ملاقاتیوں کو بھی برابر جواب دیئے جار ہے ہیں۔ ان چیدہ اوصاف کی بنا پر انہیں مسلموں کے علاوہ غیر مسلموں کا بھی اعتماد حاصل رہا، ان کے آپس میں کوئی نزاع یا جھگڑا ہوتا تو فیصلہ کے لیے اسی مرد مومن کے پاس آتے، کوئی امانت رکھنی ہو تو انھیں کی طرف متوجہ ہوتے،  بازار کی ایسوسی ایشن میں نوے فی صدی غیر مسلم ہوتے لیکن صدروہی  بنائے جاتے، ایک اور قابل داد اور قابل تقلید خوبی ان میں یہ بھی تھی کہ نام و نمود کو بہت ناپسند کرتے تھے اور اس کی کوشش میں رہتے کہ اپنے ساتھ کچھ کام کرنے والے پیدا ہو جائیں چنانچہ آج بھی ایسے مرد حضرات ہیں، جو انھیں اپنےم ربی اور سر پرست کی حیثیت سے یاد کر کے روتے ہیں، ا ان تمام ہمہ گیر اور گوناگوں مصر وفیتوں کے باوجود اصول ضابطہ اوروقت کی پابندی کے لئے بھی مشہور تھے، یہی وجہ تھی کہ ان کے دینی معاملات میں بھی کبھی فرق نہ آسکا،  صوم و صلوۃ کے تو بچپن ہی سے پابند تھے دینداری اور دیانتداری ان کا نماز وصف تھا۔ تھا حزب الاعظم اور دلائل الخیرات کابرسوں سے اہتمام رہا ،سفر حضر میں کہیں ناغہ نہ ہونے پاتا، ترجمہ کے ساتھ تلاوت کلام پاک کی پابندی رہی ،کلام پاک تو اس قدر رواں اور یاد تھا (حالانکہ حفظ نہ تھا) کہ احقر تراویح میں کہیں بھولتا تو لقمہ وہی دیتے۔

ان سب خوبیوں اور اوصاف حمیدہ کے ساتھ ساتھ اردو اور گجراتی کے اہل قلم بھی تھے،  البلاغ کے شذرات کبھی ناغہ نہ ہونے پاتے۔ صبح گھر سے نکلنے سے پہلے کہ میںمکرمی قاضی اطہر صاحب مبارکپوری کے پاس چند احادیث نبویہ کا سبق ضرور پڑ ھ لیتے، اس طرح متعدد کتب احادیث سبقا سبقا پڑھ ڈالی تھیں ۔ اس پاک ذات سے دعا ہے کہ اپنے فضل وکرم سے انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ نبیین ،شہدا وصالحین کے زمرہ میں شامل فرمائے اور وہاںکے ابدی دسرمدی راحتوں و نعمتوں فرحتوں سے ان کو مالا مال فرمائے اور ان کے طفیل وصدقہ میں ہم گنہکار غمزدوںکو بھی ان انعامات و درجات کا مستحق فرمائے ۔

  دعا کی درخواست آپ سے بھی کیا کروں جبکہ یقین ہے کہ بے ساختہ آپ کے پاکیزہ دل سے دعائیں مرحوم کے لئے نکل رہی ہیں۔

حافظ محمد صدیق  المیمنی۔۰ محمد علی روڈ بمبئی۳

کمپوزنگ: مولوی سفیان بڈھا قاسمی(گودھرا)