Ahd E jahilyat May Hajioun Ki Khidmat
سیرۃ ابن ہشامؔ، سیرت نبوی پر ایک قدیم ترین مستند کتاب ہے۔ اس میں مشہور بزرگ قریش، قصی بن کلاب کے ذکر میں اصطلاح رفادت کی بہ تصریح درج ہے ، کہ اہل مکہ، نادار حاجیوں کی مہمانداری کیاکرتے تھے، اور اس کے آگے قصی کی یہ تقرر ملتی ہے:-
’’یا معشر القریش انکم جیران اللہ وأہل بیتہ وأہل الحرم وان الحجاج ضیف اللہ وأہلہ وزوار بیتہ وہم أحق الصیف بالکرامۃ فأجعلوا لہم طعامًا وشرابًا أیام الحج حتیٰ یصدروا عنکم۔
اے صاحبان قریش، تم اللہ کے پڑوسی اور اُس کے اہل بیت اور اہل حرم ہو، اور حاجی لوگ اللہ کے مہمان، اور اُس کے مکان کے زائر ہیں۔ یہ لوگ تمام مہمانوں سے بڑھ کر خاطر مدارات کے حقدار ہیں۔ بس لازم ہے کہ ایام حج میں ان کی دعوت ومہمانی کرو، تاآنکہ تمہارے پاس سے رخصت نہ ہوجائیں۔
تحریک پر عمل ہوا۔ میزبانوں دل کھول کر مہمانداری کی، اور اس کو ایک مستقل شعار قرار دے لیا۔ جسے سلاطین اسلام نے بھی برقرار رکھا:-
ففعلوا فکانوا یخرجون لذلک کل عامٍ من أموالہم خرجًا فیدفعونہ الیہ فیصنعہ طعامًا للناس أیام متی فجرٰی ذلک من أمرہ فی الجاہلیۃ علیٰ قومہ حتیٰ قام الاسلام ثم جریٰ فی الاسلام الیٰ یومک ہذا فہو الطعام الذی یصنعہ السلطان کل عام بمنیٰ للناس حتی ینقضی الحج۔
قریش نے اس کی بسروچشم تعمیل کی۔ قریش ہرسال اپنے اپنے گھروں سے اس کارِ خیر کے واسطے اس کے پاس لاکر جمع کردیتے تھے، پھر قصی اُسی چندہ سے منیٰ میں سب کو کھانا کھلاتاتھا۔ جاہلیت کی یہ رسم ظہورِ اسلام تک برابر جاری رہی، اور اسلام نے بھی اسے قائم رکھا۔ چنانچہ آج بھی سلطان کی طرف سے منیٰ میں سب کو کھانا، زمانۂ حج بھر، کھلایاجاتاہے، یہ وہی قدیم دستور ہے۔
پھر ہاشم بن عبدمناف کے ذِکر میں ہے، کہ وہ بھی اسی طرح، حج کے موقع پر، پبلک چندہ کی تحریک کرتے، اور فرماتے، کہ
واللہ لو کان مالی یسع لذلک ما کلفتموہ۔
خدا کی قسم اگر میرے پاس اتنا مال ہوتاکہ میں ان سب کی مہمانداری کرسکتا، تو تمہیں تکلیف نہ دیتا۔
نتیجہ یہ ہوتا، کہ "فیخرجون لذلک خرجًا من أموالہم کل امری بقدر ما عندہ فیصنع بہ للحجاج طعام حتیٰ یصدروامنہا"۔
قریش میں سے ہر شخص اپنے حسب حیثیت لاکر اُن کے پاس جمع کردیتا، اور حجاج جب تک ٹھہرے رہتے، ہاشم اُسی رقم سے اُن کی مہمانداری کرتے۔
گویا حجاج کی عام دعوت کئی دن تک حکومت مکہ کی طرف سے برابر ہوتی رہتی تھی، سرزمین حجاز اُ س وقت بھی کچھ زرخیز نہ تھی۔ خشک وشاداب جس طرح آج ہے، اُس وقت بھی تھی۔ اور ’’حکومت‘‘ مکہ کی اُ س وقت بساط ہی کیاتھی؟ اتنی بھی تو نہیں، جیسی ہندوستان کی اوسط درجہ کی ریاستیں ہیں۔ اس پر بھی ہمت اور اولوالعزمی اور مہماں نوازی یہ تھی!
اُس وقت نہ موٹر ٹیکس تھا، نہ ہیلتھ (صفائی کا)ٹیکس۔ نہ ’’کوشان‘‘ کی اصطلاح سے اہل عرب آشنا تھے، نہ ’’کسٹم‘‘سے۔ اُس وقت اہل مکہ، حاجیوں کو اپنا ’’شکار‘‘ نہیں سمجھتے تھے، نہ اُنھیں اپنی ’’کھیتی‘‘ قرار دیتے تھے۔ اُس وقت وہ ان کے خادم تھے۔ اور اس خدمت گزاری کو اپنے لئے ذریعہ نجات نہیں، وسیلۂ نجات بنائے ہوئے تھے۔ وہ صحیح معنی میں ’’خدام کعبہ‘‘ تھے، اور اس لئے خدامِ زائرین کعبہ بھی! حجاج کا بال بال اُس وقت زیربار نہیں ہوتاتھا۔ اللہ ہی خوب جانتاہے، کہ حاجیوں کے حق میں بہتر زمانہ وہ تھا، یا آج کا عہد ترقی مہد!