Adab Wa Sahafat May Zuban Ki Ahmiat

Masoom Muradabadi

Published in - Zaban O Adab

09:08PM Fri 16 Feb, 2024

ادب وصحافت میں زبان کی اہمیت
معصوم مرادآبادی
زبان بنیادی طورپر خیالات کی ترسیل اور مکالمہ قایم کرنے کا ذریعہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک تہذیبی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔زبان کا تعلق صوتیات، عمرانیات، طبعیات، تاریخ اور جغرافیہ جیسے علوم سے ہے۔زبان ہی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز کرتی ہے۔زبان سے ہی انسان کی علمی، اخلاقی اور تہذیبی شناخت کا تعین ہوتا ہے۔جو کچھ ہمارے دل ودماغ میں جنم لیتا ہے، اسے ہم زبان کے ذریعہ ہی دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اگر ہمارے پاس ایک مرصع اور مربوط زبان نہیں ہوگی تو ہم اپنے مخاطب کو متاثر نہیں کرپائیں گے۔ اسی طرح اگر ہم اچھی اور سچی زبان لکھنے پر قادر نہیں ہیں تو ہماری تحریریں دیرپا اثر قایم نہیں کرپائیں گی۔ماضی میں ان ہی ادیبوں اور صحافیوں نے مقبولیت حاصل کی ہے، جو زبا ن وبیان پر قدرت رکھتے تھے یا جنھیں لکھنے کا ہنرمعلوم تھا۔موجودہ عہد کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمارے اندر مطالعہ کا ذوق نہیں ہے۔عام طورپرمطالعہ کے بغیر لوگ لکھنے کی مشق کرنے لگتے ہیں، جبکہ گہرے مطالعہ اور مشاہدے کے بغیر تحریر میں حسن اور دلچسپی پیدا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ایک مضمون لکھنے کے لیے کئی کئی کتابیں اور ایک کالم لکھنے کے لیے درجنوں اخبارات کے مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جتنا زیادہ مطالعہ کریں گے، اتنا ہی آپ کی تحریر میں روانی، سلاست اور خوبصورتی پیدا ہوگی۔ الفاظ کے استعمال اور ان کی نشست وبرخاست کا سلیقہ آئے گا۔
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ الفاظ موتیوں کی طرح ہوتے ہیں، ان کا استعمال بہت کفایت کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اسی کو کفایت لفظی بھی کہا جاتاہے۔ اس ہنر کو سمجھنا ہوتو آپ گزرے زمانے کے صحافیوں کی تحریریں پڑھیں۔ کم الفاظ میں زیادہ بات کہنے کا ہنر صرف صحافی ہی جانتے ہیں۔حالانکہ یہ ہنر ایک مجبوری کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے، لیکن صحافیوں نے اس میں کمال حاصل کیا ہے۔ صحافیوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس جگہ اور وقت دونوں کی کمی ہوتی ہے۔اسی محدود وقت اور جگہ میں اپنے فن کا جادو جگانا ہوتاہے۔اسی لیے صحافت کو عجلت میں لکھا ہوا ادب بھی کہا جاتا ہے۔ماہرین فن کے مطابق  زبان کے تنوع سے قطع نظر صحافت کی لغت عموماً پانچ سو الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ معاملہ خبر نویسی کا ہے۔لیکن جب آپ اخبار کے ادارتی صفحے تک پہنچتے ہیں تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ اداریہ اخبار کا ضمیر ہوتا ہے، جو اشاعت کے بعد قوم کا ضمیر بن جایا کرتا ہے۔ 
میرے ایک استاد جن سے میں نے انگریزی زبان کے اسرارورموزسیکھے، کہا کرتے تھے کہ”اچھی انگریزی جاننے کا سب سے موثر ذریعہ انگریزی اخبارات کا اداریہ ہوتا ہے۔“اداریہ کا حجم اخبار میں سب سے کم ہوتا ہے اور اسی کے اندر فکرونظر کے پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اردو اخبارات کے اداریوں پر بھی نافذ ہوتی ہے۔اردو اخبارات کے ان ہی ایڈیٹرس کو نیک نامی اور شہرت حاصل ہوئی جنھوں نے ایسے فکر انگیز ادارئیے لکھے، جو آج صحافت ہی نہیں بلکہ ادب کا بھی سرمایہ ہیں۔ اردو نثر کے بہت سے مراحل اخبارات کی خاموش خدمت کے وسیلے سے طے ہوئے۔ پروفیسر تنویر احمد علوی کے بقول:
”اردو اخبارات کا مطالعہ، اس کی زبان کی تہذیبی اہمیت کو سمجھنے اور اس کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے لیے غیرمعمولی ہے۔اردو نثر کے مراحل تمام تر نہیں تو بہت کچھ اخبارات کی خاموش خدمت کے وسیلے سے طے ہوئے ہیں۔“(مقدمہ ”روح صحافت“ ص،ج)
بلا شبہ اخبارات اور صحافیوں نے ادب کی بہت خدمت کی ہے۔مگرآج صورتحال بدل گئی ہے۔ نہ ویسے ایڈیٹر ہیں اور نہ اخبارات۔ قارئین کا مزاج بھی تبدیل ہو گیا ہے۔تیزرفتار زندگی نے سب کچھ بدل کررکھ دیا ہے۔آج کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ادیب اور صحافی دونوں بے قرار ہیں۔ وہ کم لکھ کر زیادہ شہرت اور دولت کمانے کے پھیر میں پڑگئے ہیں۔ اسی دوڑدھوپ کا نتیجہ ہے کہ صحافت اور ادب دونوں ہی جگہ زبان کا زوال ہورہا ہے۔ آج اخبارات میں ایسے ایڈیٹرس جگہ پانے لگے ہیں جو لکھنے پڑھنے کے علاوہ سب کچھ جانتے ہیں۔ دراصل آج اخبار کو کامیاب بنانے کے لیے اضافی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ گزرے زمانے میں لکھنے کی صلاحیت ہی سب سے بڑا ہنر سمجھی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے اسی دہلی شہر میں ایک ایسا اخبار نکلا تھا جس کا ایڈیٹر اخبارنویسی کے علاوہ سب کچھ جانتا تھا۔ جس کارپوریٹ کمپنی نے وہ اخبار نکالا تھا، اسے صحافیوں سے زیادہ تگڑم بازوں کی ضرورت تھی۔نیم خواندہ  قارئین میں اس اخبار کی مقبولیت کا راز جذباتی تحریریں تھیں جن پر تقریروں کا گمان ہوتا تھا۔ آج اس صحافی کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جوڑ توڑاور تگڑم کے سہارے کوئی کچھ دن تو زندہ رہ سکتا ہے، لیکن آخرکار اسے بے سہارا ہی ہونا پڑتا ہے۔
ادب میں بھی شہرت اور دولت حاصل کرنے کے لیے یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ایک مشہور ناول نگار اپنا ہر نیا ناول مجھے پڑھنے کے لیے بھیجتے تھے۔ لیکن میں آج تک ان کی کوئی تحریر پڑھ نہیں پایا، کیونکہ وہ جس قسم کی جنّاتی زبان لکھتے تھے وہ میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ اسے آپ میری کم علمی پر بھی محمول کرسکتے ہیں۔ایک بار انھوں نے اپنے تازہ ناول کے بارے میں میری رائے جاننی چاہی تو میں نے برملا کہا کہ میں اسے پڑھ نہیں پایا ہوں۔ جب بھی شروع کرتا ہوں تو زبان پر آکر رک جاتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ فکشن میں زبان دویم درجہ کی چیز ہوتی ہے۔میرے لیے یہ جواب خاصا تکلیف دہ تھا، کیونکہ میں تحریر میں زبان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں اور اگر کوئی ادیب خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو، زبان کے ساتھ بدزبانی کرتا ہے تو میں اسے خاطر میں نہیں لاتا۔ اسے آپ میری بے جا انانیت سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ میں خراب تحریریں پڑھنا پسند نہیں کرتا، کیونکہ اس سے مجھے اپنی زبان کے بگڑنے کا خدشہ رہتا ہے۔دراصل یہ زبان ہی ہے جو ہمیں لکھنے پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔اگر ہم اس کے ساتھ ناروا سلوک کریں گے اور شہرت یا دولت حاصل کرنے کے لیے زبان کو دوسرا درجہ دینے لگیں تو ہمیں تیسرے درجے کا ادیب بننے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔
 صحافت کا بھی یہی حال ہے۔ فی زمانہ صحافت کی دنیا میں بھی زبان کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے، وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ یعنی جس میڈیم کے ذریعہ ہم اپنے قاری تک پہنچتے ہیں، جب وہ ہی زوال پذیر ہوجائے گا تو پھر ہمارے پاس مکالمے کا کون سا ذریعہ باقی رہ جائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صحافت میں معیاری زبان لکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے، کیونکہ اخبار ایک دن کا ادب ہوتا ہے اور دن ختم ہوجانے کے بعد وہ دم توڑ دیتا ہے۔بعض اخبار نویس یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ان کے پاس زبان پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہوتا، کیونکہ ان کی توجہ تازہ ترین خبروں کی ترسیل پر مرکوز ہوتی ہے۔میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔یہ دراصل اپنی ذمہ داریوں سے راہ فراراختیارکرنا ہے۔میرے خیال میں صحافت میں بھی ادب کی طرح زبان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔یہاں میں پروفیسر محمدنعمان خاں کے ایک مضمون کا اقتباس نقل کرنا چاہوں گا۔جس سے زبان کی تشکیل وتعمیرمیں اردو اخبارات کے روشن کردار کا پتہ چلتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”ماضی میں اردو اخبارات کی زبان کے معیار ومزاج کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قارئین، ان کے مطالعہ سے نہ صرف اردوزبان میں خاطر خواہ استعداد حاصل کرلیتے تھے بلکہ اس سے ان کی فکری اور علمی تربیت بھی ہوجاتی تھی۔اسی طرح ماضی میں اردو اخبارات نے محض خبر رسانی کاہی کام انجام نہیں دیا بلکہ ادبی ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرکے قارئین کے ادبی معیار کو بھی بلند کیا۔ابتدائی عہد میں اردو اخبارات کے بیشتر مالکان اور مدیر ان شاعر یا ادیب تھے۔چنانچہ انھوں نے روزمرہ زندگی کے مسائل نیز سیاسی وسماجی حالات کی ترجمانی میں زبان کے معیار کو ملحوظ رکھا۔ کئی معروف شعرء وادباء کی بنیادی تربیت اخبارات نے ہی کی۔کئی بڑے فن کار اخبارات کے ذریعہ ہی متعارف ہوئے اور اخبارات سے ان کی وابستگی نے نہ صرف زبان وادب کے معیار کو بلند کیاہے بلکہ ابتدائی دور کے اخبارات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زبان، ان کے عہد کی زبان کے مروجہ معیار سے ہم آہنگ تھی۔“(”اردو زبان اور ابلاغ عامہ“ ص 92)
حقیقت یہ ہے کہ معیاری اورمرصع زبان لکھنے والے بیشتر لوگ ہمیں صحافت ہی نے دئیے ہیں۔ایسے متعدد نام شمار کرائے جاسکتے ہیں جو صحافت کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی سکہ رائج الوقت بنے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمدعلی جوہر، حسرت موہانی،ظفرعلی خاں، مولانا عبدالماجد دریابادی، شورش کاشمیری اور ماہرالقادری جیسی بلند پایہ شخصیات کا ہنر صحافت کے ذریعہ ہی چمکا۔ 
درحقیقت جب سے صحافت برق رفتار ہوئی ہے اور خبروں کی ترسیل کا عمل الیکٹرانک آلات کی گرفت میں آیا ہے، تب سے اس کی تکنیک بدل گئی ہے۔ پہلے اردو صحافت میں بہت مشاق مترجم ہوا کرتے تھے، جو بامحاورہ ترجمہ کرنے پراس حد تک قادر تھے کہ اسے دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ مواد کسی دوسری زبان سے منتقل کیا گیا ہے۔ حالانکہ ترجمہ ایک مشکل عمل ہے۔ علی گڑھ کے ایک پروفیسر کہا کرتے تھے کہ ”ترجمہ دراصل اپنی کمر خوداپنے آپ کھجانے جیسا کام ہے۔“اچھا ترجمہ وہی ہوتا ہے جو بامحاورہ اور آسان زبان میں کیا گیا ہواور پڑھنے والے کو کہیں بھی یہ احساس نہ ہو کہ وہ کسی دوسری زبان کا فن پارہ پڑھ رہا ہے۔ لیکن جب سے ترجمہ کا نظام گوگل بابا کے سپرد ہواہے تب سے اس کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ گوگل کی مدد سے کیا گیا ترجمہ اکثر مضحکہ خیزاور مہمل ہوتا ہے۔ ایک انگریزی میگزین نے میرے ایک اردو مضمون کو گوگل سے ترجمہ کرکے شائع کیا تومیرا نام معصوم مرادآبادی کی جگہ ’انوسینٹ مرادآبادی‘کے طورپرچھپا۔گوگل کی مشین ہر لفظ کا ترجمہ کردیتی ہے خواہ وہ آپ کا نام ہی کیوں نہ ہو۔ایک اردو اخبار میں جو اکثر ہندی خبروں کو گوگل کی مدد سے ترجمہ کرکے شائع کرتا ہے، اس میں مشہور وکیل ’پرشانت بھوشن کانام ’بحرالکاہل بھوشن‘شائع ہوا تھا۔ ہندی لفظ ’پرشانت‘ کو اردو میں بحرالکاہل ہی کہتے ہیں۔مشینی ترجمہ کو درست کرنے میں بھی کافی مشقت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔اسے درست کئے بغیر شائع کرنا زبان کے ساتھ کھلواڑ کرناہے۔اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ایک چاول دیکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آج کل اخبارات میں ’رہائشی‘کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے جو’باشندے‘ کی جگہ استعمال ہورہا ہے۔ ہندی میں اس لفظ کا بہت چلن ہے، لیکن اردو میں یہ مہمل معلوم ہوتا ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شمالی ہندوستان میں اردو اخبارات کے بیشتر نمائندے ایسے ہیں جو اردو زبان سے ناواقف ہیں۔ وہ اپنی خبریں ہندی میں بھیجتے ہیں، جنھیں گوگل کی مدد سے ترجمہ کرکے شائع کردیا جاتا ہے۔یہ کام بھی سب ایڈیٹر کی بجائے آپریٹر انجام دیتے ہیں اور وہیں سے ساری خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
گزشتہ زمانے میں اردو والے تحریرمیں ہی نہیں بول چال کی زبان پر بھی خاص توجہ دیتے تھے۔ اس کا ثبوت ایک واقعہ سے ملتا ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ کوئی35 برس پہلے کی بات ہے۔ اردو گھر میں ایک تقریب کے دوران کسی نے کہا کہ ”میں نے اس کو بولا تھا۔“ یہ سن پروفیسر نثار احمد فاروقی بگڑ گئے”یہ بولا تھا کیا ہوتا ہے۔انسان تو کچھ کہتا ہے۔ بولنے کا کام تو چرند پرنداور مویشیوں کا ہے۔کیونکہ انسان کی گفتگو کا کوئی معنی ومفہوم ہوتا ہے جبکہ مویشی اور پرندوں کے بولنے کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔“آج ہمارے ارد گرد کتنے لوگ ہیں جو زبان کی صحت پر اس درجہ دھیان دیتے ہوں۔ پچھلے زمانے میں یہ لوگ تحریر ہی نہیں بلکہ بول چال میں بھی زبان کی صحت پر پوری توجہ دیتے تھے۔ضرورت اس بات کی ہے ہمیں اچھی اور سچی زبان سیکھنے پر سب سے زیادہ محنت کرنی چاہئے کیونکہ زبان ہی ہمارا پہلا تعارف ہوتی ہے اور لوگ اسی کے ہماری علمی استعداد کا تعین کرتے ہیں۔بقول کلیم عاجز
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے
(جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے شعبہ اردو میں 15/فروری 2024کو پیش کیا گیا توسیعی خطبہ)