Abdul Mateen Muniri- John Eliya

Abdul Mateen Muniri

Published in - Zaban O Adab

02:09PM Fri 10 Nov, 2023

کل جون ایلیا کے یوم پیدائش کی مناسبت سے محترم معصوم مرادآبادی کے کالم کے بعد جون کی شاعری اور شخصیت پر جناب محمود دریابادی اور دیگر احباب کے کئی ایک مضامین اور پیغامات پر نظر پڑی، احباب کی دلچسپی کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ جون چاہے نہ چاہے ان سب کے محبوب شاعر ہیں۔

جون کا نام ہم نے پہلے پہل غالبا ۱۹۷۸ء میں سنا تھا، جب وہ ہندوستان تشریف لائے تھے، اور اس وقت کے مقبول عام ادبی مجلے بیسویں صدی دہلی نے مشاعروں میں پیش کردہ آپکے کلام کو اپنے ایک شمارے میں پیش کیا تھا، پھر آپ سے دبی میں مشاعرہ بہ یاد فیض ۱۹۸۶ء میں بالمشافہ یہی اشعارسننے کا موقعہ ملا،اس کے بعد وہ دبی کے مشاعروں میں جب بھی شریک ہوئے، ان میں ہماری ضرور حاضری ہوئی۔

جہاں تک ہماری معلومات ہیں، وہ ایک بہت پڑھے لکھے شیعہ خاندان سادات امروہہ کے ایک فرد تھے، وہ ایک نرے شاعر تھے، انہیں کسی تحریک یا نظرئے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، وہ شاعری کی رو میں بہ نکلتے تھے، ان کی زندگی کو مجاز لکھنوی، اور اختر شیرانی جیسے شاعروں اور ادیبوں میں سعادت حسن منٹو سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

جہاں تک ان کے شعروں کا تعلق ہے وہ آسان بحروں میں اور عام فہم ہوتے ہیں، یہ بات ان کی نثر میں نہیں ہے، یہ خاصی گنجلک اور فلسفیانہ نوعیت کی ہے، جب یہ سب رنگ ڈائجسٹ سے وابستہ تھے تو اس میں آپ کے لکھے انشائیوں کی بڑی شہرت ہوا کرتی تھی، خامہ بگوش (مشفق خواجہ  )  نے اپنے کالم سخن در سخن میں آپ کی نثر کی خوب دھجیاں اڑائی تھیں، بہر حال آپ کی نثر کا ادبی پایہ بھی  شعر سے کچھ کم نہیں ہے۔

جون کے بھائی کمال امروہوی (پکار، مغل اعظم، محل، رضیہ سلطانہ ) جیسی فیلموں کے عظیم مکالمہ نگار کی حیثیت سے جانے مانے ہیں، اور رئیس امرہوی مایہ ناز شاعر، اور محمد نقی پاکستان کے روزنامہ جنگ سے وابستہ سینیر صحافی، اردو شعر وادب وصحافت کے لئے ان سب کی عظیم خدمات ہیں۔  

جون پر جو تحریریں ہماری بزم علم وادب میں پوسٹ ہوئی ہیں، ان پر سرسری نظر ڈالنے پر احساس ہوا کہ ان میں لکھنے والوں کے دل کی بات واضح طور پر سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ کہنا کہ جون کے پڑھنے کا انداز لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا، ہماری رائے میں زیادہ وزنی نہیں ہے، ہم نے انہیں مشاعروں میں دھت حالت اور قابل رحم حالت میں اپنا  توازن کھوتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت جب ہماری زبان سے ان کے بارے میں کوئی ناپسندیدگی کی بات نکلتی تھی تو بہت سے جوان ہم پر خفا ہوتے تھے۔ اس حالت میں بھی وہ ان کے لئے محترم اور قابل عزت ہوتے تھے ۔

ہماری رائے میں جشن جون ایلیا دبی کے موقعہ پر صدر مشاعرہ مجروح سلطانپوری نے اپنے صدارتی تاثر میں آپ کی شاعری کو چند جملوں میں سمیٹ دیا ہے،اس میں آپ نے فرمایا تھا کہ:

((یہ گفتگو کرتے ہیں شعر میں، بظاہر اونچی اڑان نہیں لیتے حالانکہ ہوتی ہے، اور میرے نزدیک یہ اپنی طرز کے واحد شاعر ہیں اردو زبان کے ہندوستان پاکستان کہیں بھی، اور میرے بڑے پسندیدہ ، اس قدر مشکل طرز ہے ان کا کہ ہر ایک کے بس کا بھی نہیں، گفتگو کو شعر بنا دینا ، بھئی ایک دفعہ بنا دیجئے دو دفعہ بنادیجے،یہ مسلسل اس طرح بناتے چلے جائیں، یہ ان کا ہنر ہے))

 مجروح صاحب کو یہ کہنے کا حق ہے، کیونکہ آپ بھی اپنے دور کے عظیم اور مقبول شعراء میں شمار ہوتے تھے، آپ کے کئی ایک اشعار کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے، دنیا بھر میں ملکوں ملکوں اور کونے کونے میں پھیلے آپ کے اردو گیتوں کی مقبولیت میں کوئی آپ کا ہمسر نہیں۔ لیکن مقبولیت کی انتہاء کو کبھی آپ نے معیار کی بلندی نہیں سمجھا، ایک زمانے میں آپ کے لکھے ہوئے ایک گیت نے مقبولیت کی تمام حدیں پار کی تھیں۔ اس گیت کے بول تھے۔

((نہ بیوی نہ بچہ۔۔۔ نہ باپ بڑا نہ میا۔۔۔ دی ہول تھنک از ڈیٹ کہ بھیا۔۔۔ سب سے بڑا روپیہ))

اسے خوبصورت آواز کے مالک رفیع یا کشور کے بجائے مسخرے محمود نے اپنی بھونڈی سی آواز میں گایا تھا، مجروح صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ان کا سب سے غیر معیاری لیکن سب سے مقبول گیت تھا۔

ہمارے خیال میں جون کے اشعار ہوں، یا منٹو کے افسانے، یا پھر مجروح کے گیت، ان میں پیش ہونے والے بہت سے خیالات کو درست نہ سمجھتے ہوئے بھی یہ کہنے میں حرج نہیں کہ ان کی اثر پذیری در اصل ان کے بےساختگی، سادگی اور دل کو چھو لینے والے موضوعات میں مضمر ہے۔ ہمارے دینی علمی طبقے کو ان سے سبق لینا چاہئے، ہمارے یہاں سے بے تحاشا مضامین اور کتابیں آرہے ہیں، لیکن انہیں پڑھ کر کیا کبھی دل پر چوٹ لگتی ہے؟۔ کہیں کچھ اثر بھی ہوتا ہے؟ کیا کبھی ان سے آنکھیں بھیگتی ہیں، اس بزم میں بارہا کہ چکے ہیں، اور اب بھی کہتے ہیں، کہ ہماری تحریروں کے انبار کا کبھی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے، ان موضوعات کے بارے میں کبھی سوچنا چاہئے کہ ان کا  ہمارے احساسات اور زندگیوں سے کہاں تک تعلق ہے؟، اور جو زبان ہم استعمال کرتے ہیں، وہ کہاں تک قارئین کے دلوں میں اترپاتی ہے۔ اگر نہیں اترتی ہے تو آخر اس کے اسباب کیا ہے؟۔ ہمیں اس پرسنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ جو زبان اور اسلوب ہم اپنی تحریروں اور تقریروں میں اپنائے ہوئے ہیں، اور جن موضوعات کو ہم نے ان کا محور بنایا ہوا ہے، ان میں دلوں کے تار چھیڑنے کی کہاں تک سکت باقی ہے؟۔ جب تک زندہ زبان میں زندہ موضوعات ہماری تقریروں اور تحریروں کا محور نہیں بنیں گے، اس وقت تک ہمارے زبان وقلم سے نکلنے والی ہزاروں تقریریں، اور مضامین و کتابوں کے انبار کی حیثیت کباڑئیے کے مال  سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کیا ہم اس تعلق سے اپنے محاسبہ کے لئے تیار ہیں؟

2023-11-10