Abdul Ghani Mohtisham. Aik Roshan chiragh

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

02:25AM Wed 27 Mar, 2024

عبد الغنی محتشم  : ایک روشن چراغ جس کی روشنی چارسو پھیل گئی

عبد المتین منیری ۔ بھٹکل 

       

         بات  تو کل ہی کی لگتی ہے ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تین سال گذرگئے ، ۲۷۔ مارچ ۲۰۰۸ء تک عبد الغنی محتشم صاحب ہمارے درمیان جیتے جاگتے اپنے بھاری بھرکم تن و توش کے ساتھ موجود تھے ، اس دنیا میں ہر کوئی جانے کے لئے آیا ہے ، ساڑھے نو سو سال کی عمر تو حضرت نوح کے ساتھ اللہ نے مخصوص کی تھی ،  حدیث نبوی کے مطابق تو امت محمدیہ کے افراد کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر سال کی ہے.

 آپ کی ولادت ۲  ؍مئی  ۱۹۳۴ء کو ہوئی تھی اس لحاظ سے آپ کی عمر عزیز (۷۴) سال بنتی ہے۔ لیکن کیا عجب شخص تھا،  جنازہ  بڑے ہجوم کے ساتھ سب کی آنکھوں کے سامنے کاندھوں پر  لاد کر  غوثیہ محلہ کے بڑے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا ، باوجود اس کے جب بھی شہر پر کوئی افتاد آتی ہے ، اداروں اور جماعتوں میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں اس کی زندگی کا احساس ہونے لگتا ہے،  آنکھیں اس کو تلاش کرتی ہیں  اور اس کی یاد ستانے لگتی ہے ،جس طرح انسان کے جسم میں خون کی شریانیں دل پر جاکر رکتی ہیں ، وہ بھی ہمارے معاشرے میں دھڑکتے دل کی حیثیت رکھتا تھا ، جب وہ زندہ تھا معاشرے کی رگوں میں خون کے دوڑنے کا احساس ہوتا تھا ،ایک جملہ تاریخ میں ذکر ہوتا آرہا ہے کہ{تمام راستے رومہ کی طرف جاتے ہیں}  نور مسجد کے سامنے آپ کے مکان کی طرف سے بھی کچھ اسی طرح بھٹکل کے تمام راستے  ہوکر گذرتے تھے  ، آپ کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ یہ گھر ڈھنڈار ہوگیا ،بھٹکل میں شمال مشرق و مغرب میں نوائط کالونی ، ساگر روڈ  اور مخدوم کالونی وغیرہ  دیگر علاقوں سے قدیم شہر جانا ہو، یا قدیم شہر سے اوپر آنا ہو نور مسجد کے سامنے آپ کا مکان راستے میں ضرورملتا ہے اور یہاں کا تین سال  پرانا چہچہاتا ماحول آنکھوں سامنے گھومنے لگتاہے  اور گھر کے مکین کی یاد آنے لگتی ہے ۔ وہ بھی کیا دن تھے عبدالغنی صاحب جب زندہ تھے  فجر کی نماز کے بعد ہو یا مغرب اور عشاء کے بعد  اس جگہ ایک عجیب سی زندگی کا احسا س ہونے لگتا تھا ، مرحوم نے اپنے مزاج کی مناسبت سے دنیا میں رہائش کے لئے جگہ منتخب کی تھی ، کتنی اپنائیت بھردی تھی اللہ نے اس جسد خاکی میں ، چھٹیوں میں جب بھی ہمارا  وطن جانا ہوتا تو پہلے ہی روز حاضری کی کوشش ہوتی ، ملنے پر ایسا لگتا  جیسے ہمارا ہی انتظار ہورہا ہو،  وطن پہنچنے پر کبھی ملاقات میں ایک دور وز کی تاخیر ہوجاتی تو بڑی شرمندگی کا احساس ہوتا ، حالانکہ نہ ہماری ان سے کوئی رشتہ دار ی تھی نہ عمر میں کوئی برابری ، اجتماعی معاملات میں بھی ہم ان کے طفل مکتب سے بھی کم حیثیت رکھتے تھے ،لیکن آپ سے باتوں میں کبھی اس فرق کا احساس نہیں ہونے  پاتا تھا ، ہمیشہ دل کھول کر باتیں  ہوتیں، چبا کر بات کرنا گویا ان کی سرشت میں کہیں لکھا ہی نہیں تھا ، مہتر ہوکے  برتر ، افسر ہوکہ چپراسی ، استاد ہو کہ طالب ، معاشرے کے جملہ طبقات کا مکان  پر آپ کی موجودگی کے موقعہ پر ملاپ ہوتا،  سب ان سے یہاں آکر ملتے ، سب اپنا دکھ درد یہاں آکر بانٹتے  ، سب کا مداوا کرنے کی  یہاں کوشش ہوتی ۔ الحاج محی الدین منیری مرحوم کے غریب خانے کے بعد اپنی نوعیت کا  ایک ایسا نمونہ تھا جس کی مثال اب دور دور تک نظر نہیں آتی ، بس ایک خلا نظر آتا ہے ،  ایسا نظر آتا ہے کہ بھٹکل کا نوائط اپنے بیش بہا اداروں اور جماعتوں اور تنظیموں کے باوجود اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف لوٹ رہا ہے  اورتپتی دھوپ میں اس کے سر سے چھتناور درخت کا سایہ چھن گیا ہے  یا پھر جیسے بیوہ کے سر سے چادر گر گئی ہے ۔ جن حالات سے بھٹکل کا معاشرہ گذررہا ہے اس میں کم ہی ایسا ہوتا ہے جب مرحوم کی یاد نہ آتی ہو۔ لیکن اس دنیا سے ہرایک کو جانا ہے،جب رسول صحابی اور امام نہیں رہے تو ہما شما کی کیا بات ، دوام صرف اللہ کی ذات کو ہے ، وہی حي و قیوم ہے ، اسيکو زوال نہیں ۔

       عبد الغنی صاحب نے ایک خوش حال گھرانے میں آنکھیں کھولیں تھیں ، آپ کے والد حاجی باپا  ابن ابو محمد محتشم  mab  نوائط برادری کے ایک بااصول ا ور امانت دار تاجر مانے جاتے تھے ، مدراس (چنئی)  میں لنگیوں کی تجارت سے وابستہ تھے  ۱۸۶۹ء  میں اپنے والد ماجد کی قائم کردہ  فرم یم اے بی اینڈ سنز   (موتی مارکہ لنگی)  میں اپنے بھائیوں کے شریک تھے ،  بعدمیں یہ کمپنی آپ نے خود خرید لی تھی ، آپ کی اصول پسندی کے بارے میں مشہور تھا کہ انہوں نے اپنی مصنوعات پر چھ فیصد منافع مقررکر رکھا تھا ، جب بازار میں مال کم ہوتا اور زیادہ فائدہ کمانے کا موقعہ ملتا تب بھی وہ مقررہ فیصد منافع سے زیادہ منافع وصول نہیں کرتے تھے، آپ کی زندگی بڑی قناعت پسندی میں گذری ، آپ کی کاروباری حلقہ اور بھٹکلی احباب میں بڑی عزت تھی ، اپنے نظام اور ضوابط  کے بڑے پابند تھے ، ۱۹۸۱ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ،  وفات سے کچھ عرصہ قبل تک جب تک ہاتھ پاؤں نے کام کیا  موصوف بھٹکل کے ایک اور و جیہ تاجر مصبا عبد الغفور مرحوم کے ساتھ نور مسجد کو لگ کر جہاں اب جامع مسجد کامپلکس واقع ہے ،  شاہ نگاہ درگاہ کے بالمقابل ایک کشادہ جگہ پر جہاں اس وقت شکاکائی کے اونچے اونچے سایہ درخت اور سمنٹ اور پتھر کے بنے  پختہ چبوترے ہوا کرتے تھے ، یہ دونوں عصر کی نماز کے بعد پابندی سے  سلطان محلہ سے یہاں تک پیدل چڑھائی پار کرکے آتے  اور کچھ دیر سستا تے ، رنگ گور ا چٹا ، دراز قد ، جسم بھرا پرا ، لیکن توند کا نشان نہیں ، بال پورے سفید ہوگئے تھے ، غالبا اسی (۸۰) کے پیٹھے میں رہے ہونگے ، یہ دونوں مقررہ وقت پر  یہاں نظر آتے تو بہتوں کے سر احترام سے جھک جاتے ۔

       عبد الغنی صاحب نے ابتدائی تعلیم بھٹکل میں حاصل کرکے  محمد ن کالج  مدراس جو  اب گورنمنٹ آرٹس کالج کہلاتا ہے وہاں سے  ۱۹۵۸ء میں یف اے پاس کیا ، جو آج کے حساب سے پی یوسی کا درجہ رکھتا ہے، اسی دوران آپ نے  مدراس میں اہل بھٹکل کے مشہور لنگیوں کی فرم SRK   (شابندری ، رکن الدین ، قاضیا) کے مینیجر کی حیثیت سے  معاشی زندگی کا آغاز کیا ، ساتھ ہی ساتھ بھٹکلی احباب کی اجتماعی زندگی سے وابستہ ہوئے  اور بھٹکل مسلم جماعت مدراس (چنئی) کے نائب سکریٹری منتخب ہوئے ، یہ بھٹکل میں زبردست جماعتی اختلافات کا زمانہ تھا، آپ نے اس موقعہ پر جماعت المسلمین بھٹکل کا بڑھ چڑھ کر اور جذباتی انداز سے ساتھ دیا ،یہیں آپ کا ادبی ذوق بھی پروان چڑھا ، آپ نے وہاں پر مونٹ روڈ ( اناسلے) میں منعقد ہونے والے سالانہ مشاعروں  کے انتظام و انصرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، مشاعروں کا یہ شوق آخر دم تک جاری و ساری رہا ، انجمن پلاٹینم جوبلی کے موقعہ پر آپ کی قیادت میں ہونے والے آل انڈیا مشاعرہ کی  شان و بان اب بھی دیکھنے والوں کی نگاہوں میں تازہ ہے ۔

 

      مدراس کی مختصر ملازمت کے بعد آپ نے تلاش معاش میں آندھرا پردیش کا رخ کیا ، جہاں آپ کا پہلا پڑاؤ  شہر نیلور  تھا،  یہاں ایک سالانہ میلہ لگا تھا ، جس میں آپ نے ایک کینٹین لگائی تھی،  شہر اجنبی رہنے سہنے کی کوئی خاص جگہ نہیں تھی ، ایک مسجد میں قیام کیا ، وہیں وضو خانے میں نہاتے ، رات کے وقت  ٹاٹ اوڑھ کر سو جاتے ، اس میلہ سے جو رقم بچ گئی اسی سے آئندہ تجارتی زندگی کا آغاز کیا ، یہاں آپ نے محمود شیکرے ،کولا سکری ، خورشید خومی، جعفر شیکرے کی شراکت میں کینرا کیف ، سیما کیف ، شملہ کیف وغیرہ  قائم کئے  اور اپنا کاروبار وجے واڑہ ،حیدرآباد ، مدراس  اور کالیکٹ تک  وسیع کیا  ، بعد میں وجے واڑہ آپ کی تجارت کا مرکز بن گیا جہاں ، کینٹن ، بیکری  او ر سوپر مارکیٹ کا ایک جال بچھ گیا ، یہاں شیکرے سکری آپ کے شریک رہے ، آپ نے اپنی تجارت میں شراکت کا ایسا وسیع اور کامیاب تجربہ کیا جس کی دوسری مثال تاجران بھٹکل میں نہیں ملتی، ایک اندازے کے مطابق تقریبا(۱۵) افراد مختلف تجارتوں میں آپ کے شریک رہے  اور کامیابی سے باہمی احترام کے ساتھ کاروبار آگے بڑھاتے رہے۔

       اس دوران آپ نے جماعتی زندگی اور اہالیان بھٹکل کی معاشی زندگی کے سدھار اور ان کی رہنمائی کیلئے  اپنے رفقاء کی شراکت سے آل آندھرا نوائط فنڈ قائم کیا ، جس کی شائع کردہ نوائط ڈائرکٹر ی سنہ ستر کی دہائی میں وطن عزیز میں اہالیان بھٹکل کی تجارتی سرگرمیوں کی آخری بہار کی  ایک جھلک دکھاتی ہے ، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو برادری گذشتہ سات آٹھ سوسال سے جنوب مغرب میں کوچین کی بندرگاہ سے شمال مشرق میں کلکتہ  اور ویشاکا پٹم اور کاکیناڈا تک ،مغرب میں بمبئی سے مشرق  میں  مدراس (چنئی) تک  اور وسطی علاقے میں تیرپور ، سیلم ، ایروڈ ، کوئمبتور ، اوٹاکمنڈ سے ہوتے ہوئے حیدرآباد تک ہوٹل اور کپڑے کے کاروبار میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی تھی ، کس طرح خلیج عرب کے دہانے اس پر کھلتے ہی  وطن عزیز میں اپنے مفتوحہ بہت سی  تجارتی  منڈیوں کو ایسا خالی کردیا جیسے کبھی یہاں سے ان کا گذر بھی نہ ہوا ہو۔

        وجے واڑہ کے ابتدائی دور میں آپ و رفقاء کی ہمدردیاں جماعت اسلامی ہند کے ساتھ قائم ہوئیں، کیوںکہ یہ شہر اس وقت آندھرا میں جماعت کا مرکز سمجھا جاتا تھا ، اس شہر سے جماعت کے دو عظیم قائدین  اور نامور خطیب  مولانا عبد الرزاق لطیفی اور مولانا عبدا لعزیز کی اٹھان ہورہی تھی ، یہ ان حضرات کے شباب کا دور تھا ، یکے بعد دیگرے ان حضرات نے ٹامل ناڈو اور آندھرا پردیش کی امارت سنبھالی ، یہاں آپ کے رفقاء نے جماعت کے زیر انتظام ایک اسکول کے قیام میں بھی حصہ لیا، جس کی وجہ سے اس  زمانے میں بھٹکل کے پڑھے لکھے افراد میں ایک معتد بہ تعداد کی ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ قائم ہوئیں۔

        آپ کے فرزند فیاض محتشم  بیان کرتے ہیں کہ آپ دینی جماعتوں سے تعلق میں تعصب سے بلند ہوکر ہمیشہ اعتدال کی راہ اپنانے کا خیال رکھتے تھے، آپ ہی نے دوران طالب علمی انہیں تبلیغی جماعت میں جانے پر آمادہ کیا تھا ، لیکن جب تجارت و دیگر امور میں ان کا دھیان کم ہوگیا تو بعد میں آپ نے اس سلسلے میں اعتدال کی راہ اپنا نے کا مشورہ دیا ، لیکن جب ان  کے سامنے  ایک صاحب نے تبلیغی جماعت پر تنقید کی اوراس  سے منسلک احباب میں صرف ذکر وفکر کے غلبہ اور دنیا داری سے پہلو تہی کرنے کی شکایت کی تو آپ نے اس اعتراض کو پسند نہیں کیا  اور فرمایا کہ ذکر وفکر بھی ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری چیز ہے۔

        ایلور میں جب قادیانی تحریک کا اثر بڑھ گیا اور تقریبا ستر مساجد ان لوگوں کی دسترس میں چلے گئے تو آپ نے مولانا وصی اللہ مدنی صاحب کو ہمت دلائی  اور تعاون کیا ، جس کے بعد اللہ نے مولانا کے ہاتھوں بڑا کام لیا ۔

       سنہ ساٹھ کے عشرے کا آخری حصہ بھٹکل کے لئے بہت ساری اجتماعی اور معاشرتی تبدیلیاں لے کر آیا ، اس دوران قوم کے اہم مرکزی سماجی اور تعلیمی اداروں مجلس اصلاح وتنظیم اور انجمن حامی مسلمین بھٹکل کے انتظامی ڈھانچہ میں  انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں ، تنظیم  میں  ۱۹۶۴ء  میں درپیش ایک بڑے بحران کے بعد الحاج محی الدین منیری مرحوم کی ایڈمنسٹریٹر شپ میں الیکشن کے بعد ایک نئی روح اور ولولہ پیدا ہوا۔ اجتماعی اور سماجی زندگی  کواز سرنو زندگی ملی  ۔ انجمن کے  ۱۹۶۸ء میں انتظامیہ الیکشن  منعقد ہوئے جس میں نوجوان قیادت سامنے آئی ، اس الیکشن کے کمشنر بننے کا فال بھی منیری صاحب کے نام نکلا ، اس نئی ابھرنے والی نوجوان لیڈرشپ میں اہم نام عبد الغنی محتشم صاحب کا بھی ہے۔

       جب اس ٹیم نے اسٹیک سنبھالی انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج قائم ہوکر اپنے ابتدائی مرحلے  سے گذر رہاتھا  ، انجمن آرٹس کالج کے قیام میں جناب  عبد القادر حافظکا صاحب مرحوم کا بڑا ہاتھ تھا ،  اس وقت انجمن حامی مسلمین کی کل کائنات اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول اور یہ کالج ہی تھے ، بعد میں  انجمن نرسری و پرائمری اسکول، انجینیرنگ کالج ، مینجنمٹ کالج وغیرہ  اسکولوں اور کالجوں کا جو بھٹکل میں جال بچھا  بنیادی طور پر اس کا کریڈٹ  مرحوم اور ان کے رفقاء کو جاتا ہے۔

       سیاسی میدان میں یس یم یحیی مرحوم کی صورت میں قوم کو جو کامیاب اور باوقار قیادت ملی ، اس میں بھی مرحوم کی جد وجہد اور رفاقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آپ تنظیم کے سیاسی پینل کے باربار کنوینر رہے،سیاسی فیصلوں کے موقعہ پر رہنمائی کے لئے  قوم کی آپ پر ہمیشہ نظر رہی۔ وطن میں امن عامہ قائم کرنے میں بھی آپ کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ، یہاں آنے والے تمام پولیس آفیسروں نے آپ کی قدر کی ، غیر مسلم قیادت بھی ہمیشہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی رہی ، پیس میٹینگوں میں ہمیشہ آپ کی شرکت کو ضروری سمجھا گیا۔

         جماعت المسلمین بھٹکل کی سرگرمیوں میں  جذباتی لگاؤ کے ساتھ آپ نے  حصہ لیا ، اسے مضبوط کرنے میں ہمیشہ اپنا کردارنبھایا۔

          جامعۃ الصالحات  کی کاروائیوں میں ابتدا سے منیری صاحب کے شانہ بہ شانہ رہے ، اس کی  ترقی کے لئے ہمیشہ ساتھ دیا ۔

          جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی مجلس شوری کے آپ بہت دنوں سے ممبر رہے ، جامعہ آباد منتقلی وغیرہ کے  موقعہ پر آگے آگے رہے ، یاد گار جامعہ میں صدر جامعہ جناب شابندری محسن کا انٹریو اس کی  ایک علامت ہے، لیکن چونکہ اس زمانے میں انجمن کی ذمہ داریاں آپ پر بہت زیادہ تھیں، وسیع کاروبار کی نگہداشت کا  مسئلہ بھی درپیش تھا، لہذا  سنہ ستر کی دہائی میں جامعہ میں آپ کی عملی شرکت بہت  زیادہ کھل کر سامنے نہیں  آسکی ، البتہ اہم فیصلوں کے موقعوں پر آپ ہمیشہ شریک رہے، لیکن جب منیری صاحب جامعہ کے ناظم بنے تو جامعہ میں آپ کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ، منیری صاحب کو اپنے سے ناراض افراد کو قریب لانے  اور ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا فن خوب آتا تھا ، اسی کی دہائی کے بعد یہ دونوں ایک جان دو قالب بن گئے ، آپ کی رفاقت سے منیری صاحب کو خوب تقویت ملی ، پھر جناب ملاحسن صاحب او ر جناب محمد شفیع شابندری صاحب کے دور نظامت میں بھی یہ تسلسل جاری و ساری رہا ۔ مشکل حالات میں آپ کی موجودگی بڑی حل المشکلات ثابت ہوتی رہی۔

          ہر انسان اللہ تعالی کی عطا کردہ خداداد صلاحیتوں اور ان کے بر محل استعمال ہی سے کسی معاشرے میں اپنی جگہ بناتاہے۔ اللہ تعالی نے مرحوم کو بھی کئی ایک اہم صفات سے نوازا تھا ، جنہیں آپ نے قوم اور معاشرے بہبود کے لئے استعمال کیا ، غلطی سرزد ہونا ہرانسان کا خاصہ ہے ، یہی چیز تو ایک انسان کو فرشتہ سے الگ کرتی ہے ۔

 

          مرحوم کا کاروباری تعلق ہوٹل، کیفٹیریا   اور بیکری کے تجارت سے تھا، اس میدان وابستہ شخصیت  نرم  شریف  اور ڈھیلی ڈھالی ہوتو  ایک روز بھی کام نہ چل سکے ، جس زمانے میں آپ نے آندھرا میں یہ تجارت شروع کی تھی ، اس زمانے میں تحکمانہ انداز کی ضرورت کچھ زیادہ ہی تھی ، یہ ضرورت مرحوم کی ایک شناخت بن گئی جسے آپ نے اجتماعی مسائل  کے حل اور اداروں کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے بخوبی استعمال کیا ۔ آپ کے ایک رفیق بیان کرتے ہیں کہ کالیکٹ میںمنعقدہ  ایک میٹنگ کے بعد قوم کی ایک محترم شخصیت یس یم سید

 محی الدین مولانا مرحوم آپ کو یرناکولم (کوچین ) لے  گئی  ، آپ کے اسٹیل فرم کو مختلف قرض داروں سے رقم واجب الوصول تھیں ، سید محی الدین صاحب نے ان کی وصولیابی کی ذمہ داری مرحوم کو سونپی ، اب یہ قافلہ ہنسی  مزاق کرتے ہوئے گھوم پھر بھی رہا تھا ساتھ ہی ساتھ آپ کی بارعب شخصیت  و ہتھیار بناکر وصولی بھی کررہا تھا، آپ کا رعب کچھ ایسا تھاکہ قرض آسانی سے وصول ہورہے تھے۔

        آپ کے فرزند فیاض واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انجینیرنگ کالج کے ابتدائی ایام میں طلبہ کو سہولتیں میسر نہ ہونے کی شکایت ہونے لگی اور طلبہ میں بے چینی پیداکی جانے لگی ، صورت حال یہاں تک پہنچی کہ طالب علم رہنما عثمان علی کی قیادت میں کوئی تین چار سو احتجاجی طلبہ نے  ان کے گھر کا گھیراؤ کیا ،اس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ طلبہ گستاخی کرکے ہاتھ چلانے یا توڑ پھوڑ تک نوبت نہ لے جائیں، لہذا خاموشی سے وہ اور ان کے دو ایک ساتھی ناگفتہ حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں لگ گئے ، جس کی اطلاع مرحوم کو نہیں دی گئی ، اس وقت مرحوم کی  جرات  دیکھنے کے قابل تھی ، تن تنہا ہجوم کے سامنے نکلے اور لیڈر طالب علم کا کالر زور سے پکڑ کر اس طرح اٹھایا کہ سارا  ہجوم ہکا بکارہ گیا ، آپ نے  انہیں خوب ڈانٹ کر گھر بھیجدیا، ایسے بہت سارے واقعات آپ کی زندگی میں دیکھنے میں آئے ۔ ہجوم پر کنٹرل کرنے کا یہی فن تھا کہ بڑے بڑے پولیس آفیسر بھی مشکل حالات میں کنڑول کرنے کے لئے آپ کو یاد کیا کرتے تھے ،  ۱۹۹۲ء کے فسادات وغیرہ کے موقعہ پر ایسی کئی ایک مثالیں سامنے آئیں۔

       جب آپ کا انتقال ہوا تو صرف وجے واڑہ میں آپ کے کاروبار میں بھٹکل کے چار سو افراد ملازم تھے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پندرہ ہم خیال پارٹنر وں اور ملازمین کی یہ تعدا د کتنی انتظامی صلاحیتوں کا تقاضہ کرتی ہے، ہماری ناقص رائے میں ایسی کامیاب شراکت کی  دوسری مثال بھٹکل کے تاجرحلقہ میں پہلے نہ بعد میں نہیں ملتی ، آئندہ کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس کا نتیجہ تھا کہ آپ کا کاروبار ایک ٹریننگ اسکول بن گیا ، قوم کے سینکڑوں افراد نے یہاں سے کاروبار کے گر سیکھے ، ہزاروں نے یہاں سے کسب معاش کیا ،تعلقات کی وسعت اس کا فطری نتیجہ تھا ،  یہی وجہ تھی کہ بھٹکلی احباب کے جیب میں ہاتھ ڈال کر عطیات نکالنے کی جو صلاحیت آپ میں تھی اس کا ثانی نظر نہیں آیا ، ہمیں بھی آپ کے ساتھ جامعہ کے لئے سعودی عرب کا دوہفتہ کا سفر کرنے کا موقعہ ملا،  ۱۹۸۱ء میں سڑک حادثہ کے بعد جس میں آپ کی ٹانگین چور چور ہوگئیں تھیںاور روزانہ بڑھنے والے جسم کے وزن کو ڈھونے سے معذرت  کا اظہار درد والم کی صورت میں کررہی تھیں ، اس کے باوجود پھرتیلا پن ایسا تھا کہ آپ کے سامنے جوان شرمندہ ہوجاتے ، مقصد کی لگن کا نشہ ہی کچھ ایسا تھا، اس موقعہ پر دیکھا کہ لوگوں نے من مانگے عطیات ہنسی خوشی دے  دئے ، کسی کو آپ سے چھپنے کی ہمت نہ کرتے ہوئے بھی لوگ نظر آئے ۔

         اللہ نے بر وقت فیصلہ کرنے اور عامۃ الناس کے موڈ کو پہچاننے کی بھرپور صلاحیت آپ میں ودیعت کی تھی ، یہ صلاحیت دودھاری  تلوار کی مانند تھی ، اس صلاحیت سے آپ نے قومی اداروں کا بہت بھلا کیا ، اس سے قوم کو بڑا فائدہ پہنچا، لیکن آپ کا یہ انداز بہت سی شکایتیں جنم لینے یا لوگوں کو آپ سے دور کرنے کا بھی سبب بنا۔

          جیسا کہ پہلے ذکر آچکا کہ جامعہ کے انتظامی امور سے ابتدا میں وابستگی واجبی سی تھی ، بھٹکل کے علماء سے آپ کے قریبی تعلقات بھی نہیں تھے ، ایسے میں ۱۹۷۶ء میں آپ کے ایک فیصلہ سے یہ دوری  فاصلوں تک پہنچ گئی ، لیکن ۱۹۸۹ء میں کالیکٹ میں منعقدہ بین الجماعتی کانفرنس نے فارغین جامعہ کو یہ سنہری موقعہ عنایت کیا کہ قوم کو یہ باور کرائیں کہ حضر ت مسیح کے بقول کہ{ یہ کان کی نمک ہیں}  جس طرح نمک کے بغیر کھانا پھیکا  اور بد مزہ ہے ،اسی طرح بھٹکل میں علماء اب اس پختگی تک پہنچ گئے ہیں کہ معاشرے اور سوسائٹی کا اب کوئی کام ان کی فعال شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ، اس کے بعد محسوس ہونے لگا کہ اب علمائے بھٹکل کے سلسلے میں ان کے رویہ میں تبدیلی آنی شروع ہوگئی ہے پھر وہ علماء کے مضبوط حامی اور وکیل سمجھے جانے لگے ، ا۔ ہم نے بار ہا مرحوم سے بے تکلفی میں ان کے بعض پرانے موقف یا ددلائے تو ان کاجواب تھا کہ مرور زمانہ اور مشاہدات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی رویے بد ل جاتے ہیں ، اب وہ بیس تیس سال قبل کے عبد الغنی نہیں رہے ہیں۔ مرور زمانے کی تقاضوں کو سمجھنا اور اس کی ضرورتوں کے مطابق اپنے رویوں کو ڈھالنے کی صلاحیت کامیاب انسان کی نشانی ہے۔

        بین الجماعتی کانفرنس ، منیری صاحب کے آخری ایام کی رفاقت اور اس پر ہمارے قدیم  دوست اور اب کے بزرگ مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی صاحب نائب مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اثرات نے   بلاشبہ عبد الغنی صاحب کو آخری دنوں میں علمائے بھٹکل کے لئے سیف اللہ بنادیا تھا، جس کے نتیجہ میں اللہ نے آپ کو ایسے اعزازات سے نوازا جو اس سے قبل بھٹکل کی کسی اور شخصیت کو میسر نہیں آئے ، آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس شوری، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی مجلس شوری  اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ، اتنے بڑے اعزازات کے بعد شاید دوسرے اعزازات کا تذکر ہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ڈاکٹریٹ کرنے والے کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ میٹرک بھی پاس ہے۔

        آپ نے ان اعزازات کے بعد خود کو اس کا مستحق بنانے کی بھرپور کوشش کی ، آپ نے بھٹکل سے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں بھر پور کردا ر ادا کیا ، اس ادارے سے ملحقہ اداروں اور مدارس کے تعاون کے لئے اپنا رسوخ بھرپور انداز سے استعمال کیا ، ان کے فرزند کہتے ہیں کہ جب بھی ان اداروں کے مندوبین عطیات کی فراہمی کے لئے بھٹکل یا وجے واڑہ تشریف لاتے ، ان کے والد انہیں عزت کے ساتھ ان وفود کے ساتھ کرتے تاکہ ان کے حوالہ سے تعاون مل سکے۔

      ندوے اور ان کے اکابر سے محبت کی آپ کی یادگار مولانا سید ابوا لحسن علی ندوی اکیڈمی ہے،اس کے قیام ، اس کے استحکام ، قوم سے اس کا اعتراف  اور اس کی ترقی کے لئے آپ نے دامے درمے سخنے ہر طرح سے اس کی فکر کی ، اکیڈمی بھٹکل کے اداروں میں ؎غالبا سب سے نیا ادارہ ہے،لیکن دنیا شاہد ہے کہ ترقی کی رفتار میں یہ نوساختہ ادارہ تمام دوسرے اداروں سے بازی لے گیا ، اس  کی کامیابی کے پیچھے جہاں اکابر کی دعائیں  اور رہنمائیاں کوششیں اور جدوجہد ہے، اس میں عبد الغنی صاحب کی توجہات کااثر عربی مثال کے مطابق شکار میں شیر کے حصہ کے برابر ہے۔

        عبد الغنی محتشم اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن بھٹکل جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ میں جب اس کی حیثیت سے زیادہ عظیم الشان تعلیمی ادارے  اکیڈمیاں ادھر ادھر پھیلی نظر آتی ہیں  تو دعاؤں میں جہاں دوسرے بانیان کے نام یاد آتے ہیں تو آپ کا نام ذہن سے  ساقط نہیں ہوتا۔ آپ کے حق میں بھی دعائیہ کلمات ضرور نکلتے ہیں۔ کتنا خوش قسمت تھا وہ شخص منوں مٹی میں دبنے کے باوجود ، اس یقین کے باوجود کہ اب وہ دوبارہ اس دھرتی پر تاقیامت واپس نہیں لوٹے گا۔ اپنی یاد کو بھلانے نہیں دیتا ، کتنی شاندار زندگی اس دنیا میں جی گیا ، آئندہ زندگی کے لئے کیا اس کے حق میں ڈھیر سارے نیک لوگوں اور بزرگوں کی گواہیاں کافی نہیں ہیں۔

06-05-2011