Aakhiri Ashrah. Abdul Majd Daryabadi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

01:43PM Sun 31 Mar, 2024

سچی باتیں (۲۸؍اکتوبر ۱۹۴۰ء)     ۔ آخری عشرہ

تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

 

روحانیات کے عالم میں موسم بہار ختم ہونے کو آگیا۔ امت کے ’’ریفریشر کورس‘‘ کے خاتمہ کو ایک ہفتہ رہ گیا، سپاہیوں کے قدم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوگئی۔ آخری فرصت کو غنیمت سمجھ، سیکھنے والوں اور حاصل کرنے والوں کی ہمت اورمستعدی بڑھ گئی، طلب اور تڑپ دوچند ہوگئی۔ رمضان کا مبارک مہینہ، سستی اور کاہلی، پڑے رہنے اور انگڑائیاں لیتے رہنے کا مہینہ کبھی بھی نہ تھا۔ آخری ہفتہ میں چستی اور مستعدی اپنے حدّ کمال کو پہونچ گئی۔ مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا تھا(اولہ‘ رحمۃٌ)تمامتر نیکی کے قویٰ کو تحریک ہوتی رہی۔ دوسرے عشرہ سے نتائج ظاہر ہونے لگے، دلوں سے زنگ دُور ہوگئے، روح میں جلا آگئی(أوسطہ‘ مغفرۃٌ) تیسرا عشرہ نچوڑ کا ہے، رہی سہی کثافتیں بھی دور ہوجائیں گی، ایک ایک فرد، اور ساری کی ساری اُمت نکھر جائے گی، سنور جائے گی، سُدھر جائے گی(وآخرہ‘عتقٌ من النار)……حدیث میں آتاہے کہ اس فوج کا سردار اعظمؐ، آخر عشرہ میں تمامتر وقفِ عبادت ہوجاتاتھا۔ تعلقات خلق سے وقتی انقطاع کے ساتھ مصروفیت ویکسوئی براہ راست خالق وناظر کے ساتھ ہوجاتی تھی!

خبر دی ہے اُس نے جس کی دی ہوئی ہرخبر سچ اور سچی ہی نکلی ہے، کہ اسی مشق وریاضت والے مہینہ (شہر الصبر) ، اسی رحم وہمدردی والے مہینہ (شہر المواساۃ) کے آخری عشرہ میں کوئی رات ایسی بھی آتی ہے، جو سال کی ہررات عمر کی ہررات سے بڑھ کر قیمتی اور قابل قدر ہوتی ہے۔ ڈھونڈواُسے آخر کی پانچ طاق راتوں میں۔ اللہ والے اس تلاش میں ساری ساری رات جاگ کر گزارتے ہیں۔ اور دن بھر کی بھوک، پیاس کے ساتھ ساتھ رات کی نیند کی قربانی بھی بے تکلف اور بمسرت اپنے اَن دیکھے مولیٰ کے حضور میں پیش کردیتے ہیں، کہ رحمت کے فرشتے جس وقت بھی انھیں ڈھونڈتے ہوئے آئیں، غافل نہیں،ہوشیار ومستعد، اپنی چاکری پر کمربستہ، اپنی ڈیوٹی پرمسلح پائیں!……جو امت ہرسال اس مجاہدہ کی منزلوں سے گزرتی ہے، دنیا کی جدوجہد میں اُسے کسی قوم سے بھی پیچھے رہنا چاہئے؟ ہنگامہ عمل میں کسی سے بھی بچھڑ جانے، اور بچھڑ جانے کا خطرہ اُسے ہے؟

تیسواں دن یا اکتیسویں دن خوشی کا دن ہوگا۔ سالانہ جشن کی تاریخ ہوگی۔ اللہ کے دربار میں اللہ والوں کے میلہ لگنے کی گھڑی آئے گی۔ یہ انوکھے میلہ والے گھروں سے نکلیں گے، فحش گیت گاتے ہوئے نہیں، ایک دوسرے پر رنگ کی کیچڑ اُچھالتے ہوئے نہیں، پاک صاف ہوکر، نہادھوکر، دلوں میں اللہ کا نام جپتے ہوئے، زبانوں سے توحید کی بڑائی پکارتے ہوئے، شہر کے باہریا محلہ کے مرکز میں جمع ہوں گے، ناچ، ناٹک، سوانگ دیکھنے نہیں، گھوڑدوڑ میں بازی لگانے نہیں، کارنیوال میں پانسہ ڈالنے نہیں، حمدوتسبیح کے لئے، رکوع وسجود کے لئے، توحید کی گواہی، رسالت کی شہادت کے لئے۔ آج نہ کوئی بڑا ہوگا نہ کوئی چھوٹا۔ نہ کوئی آقا اور نہ کوئی رعایا، نہ کوئی شریف نہ کوئی رذیل۔ محمود وایاز ایک صف میں کھڑے ہوں گے، محلہ کے دھوبی، بھشتی، نائی، جو رئیسوں کی ڈیوڑھیوں اور حویلیوں پر گھنٹوں کھڑے، اور پہروں پڑے رہتے ہیں، اور پھر باریابی نہیں ہوتی، آج بے تکلف اور بلاجھجک اُنھیں رئیسوں، امیروں نوابوں کے شانہ سے شانہ ملائے کھڑئے ہوں گے، ایک ساتھ اُٹھیں گے، ایک ساتھ جھکیں گے، ایک ساتھ دعاؤں کے لئے ہاتھ اُٹھائیں گے!……زبانیں ایک ہوں گی، ہاتھ پیر ایک ہوں گے، قالب ایک ہوں گے، عجب کیا ہے جو اس ظاہری اور خارجی یک رنگی، یک جہتی، یکسوئی سے دل اور روحیں بھی ایک ہوجائیں!