Qazi Shabbir Akrami (Death 05-04-2005) by A.M.Muniri

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

03:16AM Fri 5 Apr, 2024

جناز ے تو ہمارے سامنے ہر روز اٹھتے رہتے ہیں، عمو ماًہم یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ جنازہ ہمارا نہیں کسی اور کا ہے،وقتی تاثر کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی کبھی ایسا ہو گا۔ لیکن کبھی کبھار ایسے بھی جناز ے سامنے سے اٹھتے ہیں جن سے سینے میںٹیس محسوس ہونے لگتی ہے،دل و دماغ صدمہ کی لپیٹ میں آجا تے ہیں ،مولانا قاضی شبیر اکرمی کا جب جنازہ اٹھا تو واقعی ایسا لگا کوئی جگر کاٹکڑا کٹ گیا ہو،کوئی عزیز جان ہمیشہ کے لئے ہم سے روٹھ گیا ہو۔

            معلوم نہیں میری ان سے کوئی قرابت داری تھی یا نہیں، ہماری نسل اور بعد کے لوگ اب پرانی رشتہ داریوں کو کہاں سمجھتے ہیں،لیکن وہ ہمیشہ میرے ساتھ اپنے قریب وعزیز ہی کا معاملہ کرتے رہے۔ شادی و غمی، صحت وبیماری ہر موقعہ پر صلہ رحمی کے احساس کے ساتھ شرکت کرتے رہے،اس راہ میں کبھی دھوپ اور بارش ان کے آڑے نہیں آئی۔ وہ رواداری کی ایسی مورت تھے جسے تراشنا اب ہمارے معاشرہ نے بند کر دیا ہے۔ قاضی شبیر اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس کے یہاں رشتہ داری اور قرابت نسل درنسل منتقل ہوتی ہے۔ عالی نسبی کی پہچان آخر ان ہی اوصاف سے تو ہوتی ہے۔ خالی زبانی دعووں سے نہیں۔

            قاضی شبیر کو غالبا پہلے پہلے ۱۹۶۶ء میں نے آپ کے والد بزرگوار مولانا اسماعیل اکرمیؒ کی رحلت کے بعد دیکھا تھا۔ بیت الشیخ کے جانشین کی معصوم  اور بھولی بھالی صورت اب بھی ذہن میں تازہ ہے،اس وقت ہماری اتنی عمر نہیں تھی کہ آپ سے روابط استوار ہوتے ، یہ موقع تو بعد میں جواں مرگ دوست  مولوی فیاض محی الدین دامدا فقیہ  کے طفیل میسر آیا، مولوی فیاض محی الدین اقطاب ویلور کے دارالعلوم لطیفیہ میں آپ کے ہم جولیوں میں تھے، اب کی نسل مولوی فیاض کو کیا جانے، ۱۹۷۸؁ء میں جب رحلت ہوئی تو عمر تیس کے پیٹے میں تھی۔جدید عربی ادب پر دسترس، انگریزی سے بھر پور واقفیت ، کام کا جذبہ، عالم عرب کے جرائد واخبارت سے باخبر، زندگی مزید نصیب میں لکھی ہوتی تو شاید عربی زبان دانی میں اپنی مثال آپ ہوتے، آج بھٹکل میں جدید عربی مجلات وجرائد کی جو بہتات ہے اور بھٹکل اس لحاظ سے ہندوستان کے دوسرے شہروں اور علمی مراکز پر امتیاز حاصل کرتا جارہا ہے۔مولوی فیاض ہی کی قائم کردہ روایت کی دین ہے کہ جسے آپ کے بعض نیاز مندوں نے آگے بڑھایاہے۔مولوی فیاض کی رفاقت نے  مرحوم کو جدید کا متلاشی بنا دیا تھا۔اس جدید کی تلاش نے ناچیز کے بارے میں بھی آپ کو مبالغہ کی حد تک خوش گمان بنا دیا تھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی جدید موضوعات پر خطبات اور نئی عربی کتابوںکے بارے میں ضرور دریافت کرتے ۔

            مولانا اسماعیل اکرمیؒ کی رحلت کے وقت وہ دارالعلوم لطیفیہ سے فارغ ہو کر وہاں کی مسند تدریس پر فائز ہو چکے تھے اور جب ۱۹۷۱؁ء میں طلب علم  اس ناچیز کو مدراس لے گئی تو وہاں جمالیہ کالج میں لطیفیہ سے نووا ر دشاگردوں کے دلوں میں آپ کی سنہری یادیں تازہ تھیں، اس وقت تک وہ عائلی ضروریات سے مجبور ہو کر تدریس کو خیر باد کہہ چکے تھے ،آپ کے شاگردوںسے تذکر ے سن کر ایسا محسوس ہوتا جیسے بھٹکل سے کوئی انسان نہیں بلکہ فرشتہ نکل کر ویلور میں نمودار ہوا تھا ،قاضی شبیر دارالعلوم  لطیفیہ میں مثنوی مولانا روم اور گلستان وبوستان سعدی پڑھایا کرتے تھے۔

            فارسی ادبیات کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں تصوف کو اخلاق و تز کیہ کی معراج پر پہنچایا گیا ہے۔ اس میں تصوف کی فلسفیانہ موشگافیوں کے بجائے شگفتہ انداز میں حکایات و مثالوں کے ذریعہ زندگی کے اعلی معیار سکھائے گئے ہیں۔  آپ کے خاندانی ورثہ  کے ساتھ اس پر فارسی اخلاقیات کی تدریس نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ قاضی شبیر کے یہاں روحا نیت کے ساتھ اعلی اخلاق کا جو امتزاج نظر آیا اس میں رومی و  سعدی کی تعلیمات کا بڑا اثر رہا ہوگا، آخر ایسا کیوں نہ ہو ، آپ نے ان تعلیمات کو نہ صرف پڑھا بلکہ انہیں پڑھایا بھی۔

            ۱۹۷۵ء کے آس پاس کچھ عرصہ مکتب جامعہ اسلامیہ فاروقی مسجد میں مجھے آپ کی رفاقت میں پڑھانے کا بھی موقعہ نصیب ہوا، اس وقت بلا وجہ ایک خاتون سے بھر ے بازار میں آپ کی شان میں گستاخی کا واقعہ بھی پیش آیا۔ جب آپ کے صبر و تحمل کی مثال بھی دیکھنے کو ملی ، اللہ جزائے خیر دے، آنے والی نسلوں کے لئے آپ نے واقعی تحمل و برداشت کی مثال پیش کی۔

            اپنے حقوق سے خاموشی کے ساتھ دست برداری کے واقعات بھی سامنے سے گذر ے ، اور جنازے میں عامۃ الناس کے ہجوم نے یہ بات ثابت کر دکھائی کہ مقبولیت منادی لگانے سے نہیں  ملتی ، خاموشی سے دی ہوئی قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں، علام الغیوب کے رجسٹر میں یہ محفوظ رہتی ہیں، آخر اشتہار بازی کے بغیر مقبولیت کی انتہاء یہی تو ثابت کرتی ہے۔

            قاضی شبیر کی جدائی سے واقعی بھٹکل کا ماحول سونا سونا لگتا ہے۔ کسی قیمتی شی کے کھونے کا احساس ہوتا ہے۔ وطن جب بھی جانا ہوتا پہلی فرصت میں آپ سے ملا قات کے لئے دل تڑپتا، ملنے پر مادیت کے اس ماحول میں اپنا ئیت کا احساس ہوتا، آپکے مزاح کا انداز واقعی کچھ دیر کے لئے پھلجھڑیا ںبکھیرتا، مسرت و خوشی کے چند لمحات جھولی میں لے کر لوٹتا ،لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے ،قاضی شبیر صاحب ہمیں چھوڑ کر بہت دور جا چکے ہیں۔ اب ان کی یادوں کی قندیلوں کی روشنی میں چلنا ہوگا ، یہی قانون قدر ت ہے۔ ہر کوئی جانے کے لئے آیا ہے۔ وہی ذات حی و قیوم  ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلندکرے۔

                                                                                                                         

13-04-2005