Hazrat Ali Aur Muawia May Ikhtilaf- A M Daryabdi

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

11:31PM Sat 20 Apr, 2024

نہج البلاغہؔ، اہل تشیع کے ہاں کی ایک نہایت معتبر ومتبرک کتاب کا نام ہے، اور کہاجاتاہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کلمات وخطبات کا مجموعہ ہے۔ اس کا اقتباس ذیل، حال میں، اہل سنت کے ایک رسالہ میں شائع ہوا ہے:-

ومن کتاب لہ علیہ السلام کتبہ الی أہل أمصار یقتص فیہ ما جری بینہ وبین أہل صفین:-

وکان بدأ أمرنا أن التقینا والقوم من أہل الشام والظاہر أن ربنا واحد ونبینا واحد ودعوتنا فی الاسلام واحدۃ لانستزیدہم فی الایمان باللہ والتصدیق برسولہ ولا یستزیدوننا فالأمر واحد الا ما اختلفنا فیہ من دم عثمان ونحن منہ برءا۔

حضرتؓ نے اپنے اور اہل صفین (جماعت امیر معاویہؓ) کے نزاعات سے متعلق جو فرمان اپنے ملک بھر میں شائع کرایاتھا، وہ حسب ذیل ہے:-

ہمارے معاملہ کا آغاز یوں ہوا کہ ہم اور اہل شام (فریقِ امیر معاویہؓ) آپس میں لڑے۔ اور کھُلی ہوئی بات ہے، کہ ہمارا اور اُن کا خدا ایک ہے، اور ہمارا اور اُن کا رسول ایک ہے، اور ہمارا اور اُن کا کلمۂ اسلام ایک ہے۔ اللہ اور رسول پر ایمان رکھنے میں نہ ہم اُن سے زیادہ ہیں، اور نہ وہ ہم سے زیادہ، غرض ہر معاملہ میں بالکل اتفاق ہے۔ صرف خون عثمانؓ میں ہمارا اُن کا اختلاف ہے، (یعنی وہ مجھے بھی شریک سمجھتے ہیں)حالانکہ میں اس سے بَری ہوں۔

مخالفت ومنافرت، بلکہ عداوت کی اب اس سے بڑھ کر شدید صورت اور کیا ہوگی، کہ معاملہ باتوں سے گزر کر ہاتھوں تک ، اور زبانوں سے گزر کر تلواروں تک پہونچ چکاہے۔

دونوں فریق ، ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوکر ، میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل صف آراہیں۔ وہ چاہتے ہیں، کہ وہ کٹ کر رہ جائیں، اور اُن کی تمنا ہے کہ ان میں سے کوئی جیتا نہ بچے۔ گویا جانی دشمنی، اور وہ بھی اپنی آخری حدتک ہے۔ لیکن عین ایسے وقت پر بھی ، مولائے مؤمنین، علی مرتضیؓ ، شیر خدا، کیا فرماتے ہیں؟ کیا یہ کہ یہ باغی سرتاسر ملعون ہیں، بے ایمان ہیں، منافق ہیں، دین فروش ہیں، بھیڑ کی کھال میں بھیڑئیے ہیں، ننگ انسانیت درندے ہیں، ’’دروغ باف‘‘ ہیں، خلیفۂ اسلام کے غدار ، کندۂ جہنم ہیں، پرستاران ابلیس ہیں، بیزم نار ہیں؟ کہیں ان کے کفرکا، ارتداد کا، نفاق کا فتویٰ، صراحتًا نہ سہی، اشارۃً بھی دیتے ہیں؟ یا اس کے برعکس، ان کے ایمان کا اعتراف کررہے ہیں، اور صاف صاف فرمارہے ہیں، کہ ہم اور وہ دین میں بھائی بھائی ہیں، ہمارا اُن کا کلمہ ایک، رسول ایک، اللہ ایک، نزاع واختلاف جو کچھ ہے، وہ صرف ایک جزئیہ میں ہے، یعنی وہ مجھے خونِ عثمانؓ میں شریک سمجھتے ہیں، حالانکہ میں اس سے بالکل بَری ہوں۔

کیا یہ واقعہ صرف اس قابل ہے، کہ بس اسے ایک تاریخی بیان کی حیثیت سے پڑھ لیاجائے، اور اس سے خود کوئی سبق ہدایت نہ حاصل کیاجائے؟ آج ہمارے اندرونی اختلافات ونزاعات کیا اس سے کچھ زائد ہیں، جتنے اہل شام کے حضرت خلیفۂ رسول سے تھے، وہاں خونریزی ومقاتلہ تک کی نوبت آچکی تھی، یہاں ابھی یہ نوبت تو نہیں۔ اس پر بھی ہماری زبان میں، ہماری پارٹی سے باہر ہرشخص، کھُلا ہوا بے ایمان ہے، غدّار ہے، منافق ہے، بددیانت ہے، قوم فروش ہے، اور یا انگریز کے ہاتھ کا بِکا ہوا ہے! یا ہندوؤں کے ہاتھ! ایمانداری اور دیانت سے اختلافِ رائے گویا ہمارے نزدیک محض ایک لفظ ہی لفظ ہے، جو خارج میں کوئی وجود اور کوئی معنی رکھتا ہی نہیں!……’’تاریک خیال‘‘ مولویوں مُلّاؤں کے نزدیک، کفروایمان، نجات وعدم نجات کا مدار آکر، رفع یدین وآمین بالجہر، ’’دوالّین‘‘و ’’زالّین‘‘ (حرف ’ض‘ کے صحیح مخرج) پر رہ گیاتھا، اور ’’روشن خیال‘‘ لیڈروں ایڈیٹروں کی عدالت میں، دیانت وبددیانتی، خلوص ونفاق، ایمان و بے دینی کا سارا معیار یہ رہ گیاہے، کہ ووٹ کدھر ہے ، جداگانیوں کے ساتھ، یا مخلوطیوں کے ساتھ!

وای اگر از امروز بود فردایی