Search results
Search results for '0'
آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ ۔08- شیخ التبلیغ ،مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی خدمت میں
بقلم : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل M : 00971555636151 علی گڑھ جانے کے لئے کانپور اسٹیشن پر گاڑی بدلنی پڑتی تھی ، ابھی ہم اسٹیشن ہی پر تھے کہ ایک طرف مولانا علی میاں سات آٹھ علماء کے ساتھ نظر آئے ، مولانا سے سرسری سا تعارف پہلے سے تھا، وہ جانتے تھے کہ میں بھٹکل سے ہوں اور مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی سے میری رشتہ داری ہے، مولانا خواجہ صاحب ندوہ میں ایک دو سال ان کے شریک درس رہے تھے۔ جب میں نے مولانا کو سلام کیا تو پوچھا کہاں جارہے ہو منیری صاحب؟ میں انہیں علی گڑھ امتحان کے ارادہ س
آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -07-ادارہ تعلیمات اسلام میں داخلہ
تحریر : عبد المتین منیری میری ابھی شادی ہوچکی تھی ، تعلیم نامکمل ہونے کا احساس دل میں شدت سے ستانے لگا اور اس کا خبط سرپرسوار ہوگیا ۔ محی الدین مومن اس وقت بمبئی میں رہتے تھے ، انہیں ساتھ لے کر لکھنو روانہ ہوگیا۔ اس وقت مولانا عبدالحمید ندوی بھٹکل چھوڑ چکے تھے ، لکھنو کے محلہ نظیرآباد میں انہوں نے کپڑے کی ایک دکان لگائی تھی ، میں مولانا کے پاس نظیر آباد جاکر اترا، اور تعلیم مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ مولانا عمران خان ندوی مرحوم کے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں اہتمام کا دور تھ
آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -06- انجمن سے استعفی ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری
میں نے انجمن میں بحیثیتِ مدرس دو سال خدمت انجام دی ، جب میںہائی اسکول میں پڑھاتا تھا میری کل تنخواہ بائیس روپیہ تھی ، میں نے انجمن انتظامیہ کو درخواست دی کہ گھریلو ذمہ داریوں کے پیش نظر میری تنخواہ بہت کم ہے ، لہذا میری تنخواہ میں اضافہ کرکے اسے تیس روپیہ ماہانہ کیا جائے۔ مجلس انتظامیہ کے محی الدین صاحبان میری درخواست پر غورکرنے کے لئے جمع ہوگئے اور مجھ سے جرح شروع کی کہ کیاتمھارے بڑے بھائی کماتے نہیں ہیں، جو تنخواہ میں اضافہ کی درخواست لے کر آئے ہو؟ تمھارے مصارف کیا ہیں
آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -05 - طالب علمانہ شرارتیں ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری
طلبہ کو امتحان کے دنوں میں فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کس طرح سوالات حاصل کئے جائیں ۔ ہمیں بھی یہی فکر لگی رہتی تھی ، امتحان کے قریبی ایام میں ہم بھی اساتذہ کو سوالات کے لئے تنگ کیا کرتے، انجمن میں ایک استاد ہوا کرتے تھے جن کانام﴿ نائینن﴾ تھا۔ ہم ساتھیوںنے ان کے پرچے چرانے کی سازش رچائی اور ایک رات ان کے کمرے کا تالہ کھولنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ لیکن مشکل یہ آپڑی کہ تالہ بند نہ کرسکے۔ لہذا منڈلی علاقہ میں سوئے ہوئے لوہار کا دروازہ کھٹکھٹایا جو انگیٹھی میںلوہے کو جلاتااور ہتھوڑا مارمارک

آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -03- انجمن میں تدریس۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری
یہ وہ زمانہ تھا جب انجمن میں انگریزی چوتھی جماعت تک تعلیم ہوتی تھی ۔ پانچویں جماعت یعنی نویں کا ابھی آغاز نہیں ہواتھا ، چوتھی جماعت میں کامیابی ملنے کے بعد باہر جاکر مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت مجھ میں نہیں تھی۔ لہذا اسی پر قناعت کرتے ہوئے انجمن میں دینیات کے مدرس کی حیثیت سے میری تقرری ہوگئی ۔ اور پہلی جماعت سے چوتھی جماعت تک دینیات پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اس کے دوسرے سال انگریزی پانچویں جماعت کا انجمن میں آغاز ہوا۔ میں نے ذمہ داران سے پانچویں جماعت میں
آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -02- سفر زندگی کا آغاز ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری
اپنی ڈائری میں میرے والد مرحوم کی تحریر کے مطابق میں نے مورخہ ۱۸ ربیع الاول ۱۳۳۸ھ اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ، اسکول میں یہ تاریخ ۱۷مارچ ۱۹۱۹ء لکھی ہوئی ہے۔ ابتداء میں ہمارے گھریلو معاشی حالات تنگ دستی کا شکار تھے ۔ غربت ہم پر سایہ فگن تھی ۔ حالات ایسے نہ تھے کہ باقاعدگی سے اسکول میں تعلیم جاری رکھ سکتا ، ابھی میں عمر کے دسویں سال میں تھا کہ تلاش معاش کے لئے دوتین سال پڑھ کر مجھے بمبئی کا سفر کرناپڑا، طبیعت میں بڑی چنچلاہٹ تھی ، یکسو ہوکر کام کرنے کی عادت نہ تھی ، لہذا ای

آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -01- ۔۔۔ آغاز سخن ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری
جنوبی ہندکی ریاست کرناٹک کے قصبے بھٹکل نے اپنے جائے وقوع اور آبادی کی نسبت سے زیادہ شہرت پائی ہے ، گزشت نصف صدی میں اسے برصغیر کے اکابر سے اپنی حیثیت اور وسعت سے زیادہ پذیرائی پائی ہے ۔ یہاں کی جن شخصیات کی قربانیاں اس کا ذریعہ بنیں ان میں اہم ترین نام جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ کا ہے ۔ مرحوم گزشتہ صدی میں چالیس کے عشرے سے مورخہ ۳۰ !اگسٹ ۱۹۹۴ء داعی اجل کو لبیک کہنے تک بھٹکل اور ممبئی میں سرگرم عمل رہے ، ایک ایسے زمانے میں جب ہندوستان سے عازمیں حج بیت اللہ صرف قرعہ نکلنے کے بعد ہی ح

آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 04۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
پچاس کی دہائی میں ایک اعلی دینی تعلیمی ادارے کے قیام کے خواب کو ۱۰!شوال ۱۳۸۱ھ ۔ ۱۷!مارچ ۱۹۶۲ء ابو محل بھٹکل میں منعقدہ اجلاس میں تعبیر ملی ،یہاں ڈاکٹر علی ملپا اور ان کے بھٹکل کے رفقاء نے اس کے قیام کا فیصلہ کیا ، اور قوم کی تائید اور تعاون حاصل کرنے کے لئے بمئی روانہ ہوئے ،تین روز کا سفر طے کرکے وہاں پہنچے اور تین چار روز کے اندر ہی دسویں روز ۱۹!شوال ۱۹۸۱ھ۔ ۲۶!مارچ ۱۹۶۲ء بمبئی مسلم جماعت کا اجلاس جناب محی الدین منیری صاحب کی صدارت میں اجلاس ہوا ،اس اجلاس میں منیری صاحب کو جامعہ کے آغاز ک

آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 03۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
بھٹکل میں مستقل قیام کے فیصلے اور دواخانہ کے آغاز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بھر پور طور پر یہاں کی سماجی اور اجتماعی زندگی میں حصہ لیا ، وہ یہاں کے مرکزی اداروں ، مجلس اصلا ح وتنظیم ، انجمن حامی مسلمین ، جماعت المسلمین میں متحرک رہے ، میونسپل کونسل میں بھی رہے ، ان اداروں میں وہ مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے، لہذا انہیں معاشرے کی بیماریوں اور خامیوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جاننے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ا ور وہ نہ صرف جسم کے بلکہ روحانی امراض کے بھی ماہر معالج بن گئے ۔آخر الذکر میدان میں مہارت کی تکمی

جگر مراد آبادی کے خطوط - قسط 02 - تحریر : محمد رضا انصاری فرنگی محلی
۷۸۶ گونڈہ مولاۓ مخلص و مکرم زاد لطفہ علیکم السلام ورحمتہ اللہ برکاتہ آپکے دو مکتوبات نظر نواز ہوۓ،میری علالت کا سلسلہ جاری ہے ۔روزانہ لکھنؤ جانے کا ارادہ کرتا ہوں اور روزانہ ختم کر دینا پڑتا ہے ، کل کسی ٹرین سے غالبا ً روانہ ہو سکوں ۔ میرا یہ عالم ہے کہ جیسے اب کسی چیز میں کوئ دلکشی باقی نہیں رہ گئ ہے یہی علامت ہے کہ غالبا ً زمانہ طلبی کا قریب تر آتا جا رہا ہے ، میں نے یہ محسوس کر کے کہ صحت بھی جواب دیتی جارہی ہے،خدا جانے کس وقت دنیاۓ اعتبار کو الفراق کہہ دین
جگر مراد آبادی کے خطوط 01- تحریر : مفتی محمد رضا فرنگی محلی
’ جگر ‘ صاحب [علی سکندر’جگر‘ مرادآبادی ]۔ وفات گونڈہ میں نو ستمبر1960ء مطابق 16 ربیع الاول جمعہ 1380ھ ، کچھ افتاد طبع اور کچھ مشاعروں میں مصروف تر زندگی کی بدولت خط و کتابت کے جھمیلے میں کم پڑتے تھے ، ایسے ضروری خطوط بھی ، جن میں انکی منفعت مضمر ہو ،جواب سے اکثر و بیشتر محروم رہ جاتے تھے ، یہ تو بعض مخلصین کی خیر خواہی تھی کہ ایسے ضروری خط موصول ہوتے ہی وہ جواب لکھوا دیتے یا ان سے پوچھ کر لکھ دیتے تھے ۔ میرے سلسلے میں ایک حسن اتفاق یہ بھی تھا کہ وہ مہینے دو مہینے میں ایک پھیرا لکھنؤ کا ضرور کرت
This madrasa in Agra has 202 Hindu students and offers Maths, English
Agra: The sight must be cheerful where an Islamic madrasa offers education to students belonging to other faiths and teaches them subjects of their choice. Breaking all stereotypes, Moinul Islam Madarsa Darautha offers Hindu students subjects like Mathematics, English for almost a decade. Apart from Urdu, Arabic and Farsi, subjects like English, Hindi, Mathematics, Science and Computer Science are taught in this Islamic institute, quotes India Today. The madrasa was established in 1958

نومبر 20: کو اردو کے مقبول ترین شاعر فیض احمد فیضؔ کا برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ کے اجداد کا سلسلہ نسب سہارنپور کے راجپوت فرمانروا" سین پال" سے ملتا ہے۔ اُن کے پردادا کا نام سر بلند خاں اور دادا کا نام صاحبزادہ خاں تھا ۔ فیضؔ کی ہمشیرہ اختر جمال ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں: " کسی زمانے میں ایک راجپوت راجہ ہوا کرتا تھا اس کا نام سین پال تھا۔اس کا تعلق سہارنپور سے تھا۔ اس کی اولاد میں ایک نے اسلام قبول کر لیا۔ ہمارے والد کا تعلق اسی شاخ سے ہے۔ہمارے پردادا کا نام سر بلند خاں اور
نومبر 10 : اردو کے معروف شاعر حیدر دہلوی کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی --------------------------------------------------------------- حیدر دہلوی کا اصل نام سید جلال الدین حیدر تھا اور وہ 17 جنوری 1906ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے نو سال کی عمر میں انہوں نے شاعری کا آغاز کیا اور 13 برس کی عمر میں مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ وہ شاعروں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو داغ و مجروح کی تربیت یافتہ نسل تھی۔ خمریات کے موضوعات کی مضمون بندی میں انہیں کمال حاصل تھا اسی لیے ارباب ہنر نے انہیں خیام الہند کے خطاب سے نوازا تھا۔ آزادی کے بعد حیدر دہلوی‘ پا
نومبر 09 : مشہور و معروف شاعر بیخودؔ بدایونی کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیخودؔ بدایونی کا اصل نام محمد عبد الحئی صدیقی تھا۔ آپ 17 ستمبر 1857ء کو بدایوں کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق بے خود نے پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکیل کی حیثیت سے مراد آباد اور شاہجہان پور میں کام کیا۔ پھر وکالت سے اکتا کر سرکاری نوکری سے وابستہ ہوئے اور سروہی (راجستھان) اور جودھپور میں خدمات انجام دیتے رہے۔ بے خو
نومبر 08 :-: آگہی اور حیرت کے شاعر‘ جون ایلیا کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعری روما نی جذبوں کے بیان اور شاعر کے داخلی احساسا ت کو اس کے مشاہدے اور تجربے سے آمیز کر تے ہو ئے بیا ن ہو تی ہے۔ایک تصور سے ہزار تصویر وں کی جھلک اور کسی ان دیکھی دنیا کی جستجو جو شاید نہیں ہے لیکن اس کا گما ن شاعر کو ہو تا ہے کہ وہ تو ہے۔جون ایلیا محض انکا ر نہیں کر تے بلکہ انکار کو ایک نئی سمت اور روایت کا عنوان دیتے ہیں۔ جو ن ایلیا اردو شاعری میں حیرتوں کے نئے در وا کر تے ہیں اور وہ بعض صورتوں میں اپنے لیے شاعر ی کر تے ہیں کہ ان ک
نومبر 08 : کو ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا یومِ پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آباؤ اجداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال کے آباؤ اجداد ہندو برہمن تھے ۔ کشمیر کے ایک قدیم پنڈت گھرانے سے ان کا تعلق تھا ۔ گوت "سپرو" تھی کشمیر پنڈت اعلٰی درجہ کا سیاسی فہم رکھنے کے ساتھ ساتھ فارسی میں اچھی دسترس رکھتے تھے ۔ "سپرو" کشمیری لفظ ہے۔ اس کے معنی میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اقبال بھی اپنی ھیات میں ُ سپرو" کے صحیح معنی کا کھوج نہیں لگا سکے تھے ۔ ابھی تک اس کے تین معنی سامنے آۓ ہیں: بقول محمد دین فوقؔ: "
نومبر 07 :-: نامور شاعر اور برصغیر پاک و ہند کے آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفرّ کا یوم وفات ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہادر شاہ ظفرؔ کا پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا۔ان کی ولادت ان کے والد اکبر شاہ ثانی کے زمانہ ولی عہدی میں ان کی ہندو بیوی لال بائی کے بطن سے ہوئی۔ظفرؔ کی تاریخ پیدائش 28 شعبان 1189ھ مطابق 14 اکتوبر 1775ء ہے۔وہ ہفتے کے روز غروبِ آفتاب کے وقت پیدا ہوۓ تھے۔ابو ظفرؔ ان کا تاریخی نام تھا۔جس کے اعداد 1189 ہوتے ہیں۔اپنے تاریخی نام ابو ظفرؔ کی رعایت سے ہی انھوں نے اپنا تخلص ظفرؔ رکھا تھا۔بہادر شاہ ظفرؔ کے جد امجد شاہ اول(ابنِ