Search results
Search results for '0'
سفرحجاز۔۔۔(06)۔۔۔ کامران۔۔۔ احرام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
باب (٦)۔ کامران___احرام کامران کی مستقل لغویت کے تذکرہ کو کہاں تک پھیلایا جائے، جو کچھ بھی پیش آتا ہے، بہ ارادہ الٰہی کسی مصلحت و حکمت تکوینی ہی کی بناء پر پیش آتا ہے، صبر کے سوا چارہ نہیں، شکر سے بہتر مداوا نہیں، لیکن یہ جو کچھ لکھا گیا ’’جگ بیتی‘‘ تھی۔ ’’آپ بیتی‘‘ یہاں بھی سفر کی دوسری منزلوں کی طرف نسبتاً بڑے مزے کی رہی۔ ادھر ہماری کشتی کنارے سے لگی، اُدھر اسی لمحہ ڈاکٹر کی سرکاری موٹر لانچ بھی پہونچی، اور ساحل پرقدم رکھتے ہی ڈاکٹر قاسم چوہان سے تعارف ہوا۔ یہ چیف میڈیکل آفیس
سفر حجاز۔۔۔(05)۔۔۔ سمندر ۔۔۔ کامران۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
باب (۵)۔ سمندر۔۔۔۔ کامران 29مارچ ساحل بمبئی سے جہاز 11 بجے شب کو چھوٹا تھا۔رات تو خیر جوں توں کٹ گئی، صبح اٹھ کر دیکھا تو ہر طرف عالم آب، جہاں تک بھی نظر کام کرتی ہے بجز پانی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا، اپنی عمر میں یہ منظر کبھی کاہے کو دیکھا تھا۔ بڑے سے بڑے دریا جو ابتک دیکھے تھے، وہ بھلا سمندر کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے ہیں، صبح سے دوپہر، اور دوپہر سے شام اور شام سے پھر صبح، نہ کہیں جہاز رکتا ہے، نہ کوئی اسٹیشن آتا ہے، ہر وقت ایک ہی فضا محیط، ہر سمت ایک ہی منظر قائم! دن طلوع ہوت
سفرِ حجاز(03)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
باب (۳) جہاز جہاز کی روانگی کی تاریخ خدا معلوم کتنی بار بدلی، ہماری اطلاعیں براہ راست کمپنی کے دفتر سے حاصل شدہ ہوتی تھیں۔ ٹرنرماریسن کے دفتر میں ایک صاحب قاری محمد بشیر اعظم گڑھی بڑی کام کے اور مستعد آدمی ہیں، وہ بیچارے ہمارے ہر کام کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، اس پر بھی ہر اطلاع غلط ہی ثابت ہوتی اور روانگی برابر ٹلتی رہی، اس میں خاصا قصور ہم لوگوں کا بھی تھا، جو اپنی ناواقفیت اور ناتجربہ کاری سے حاجیوں کے جہاز کو ریل پر قیاس کی ہوئے تھے، ان جہازوں کے چھوٹنے میں بہت سے ایسے موثرات کام ک
سفر حجاز۔۔۔(04)۔۔۔جہاز ۔۔۔سمندر۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادی
سفر حجاز ۔۔(02)۔۔۔ بمبئی ۔۔۔ جہاز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
باب (۰۲) بمبئی۔۔۔ جہاز سفر کا ایک اہم جزو، رفقائے سفر ہوتے ہیں، سفرِ حج میں یہ اہم جزو بہت زائد اہم ہوجاتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس سفر نامہ کا پڑھنے والا اس اہمیت کو خاص طور پر ذہن نشین کرلے، اپنا جس وقت سے سفر حج کا ارادہ ہوا تھا، اسی وقت سے شریکِ زندگی بھی آمادہ سفر تھیں، اور آمادگی محض زبان تک محدود نہ تھی، بلکہ اپنا زیور علیحدہ کرکے روپیہ کا بھی انتظام کرلیا تھا، خوشد امن صاحبہ (والدہ خان بہادر شیخ مسعود الزماں بیرسٹر باندہ جو بعد کو ماشاءاللہ خود بھی حاجی ہوگئے، اور اس وقت صوبہ کونسل ک
سفر حجاز ۔۔۔(01)۔۔۔ باب اول ۔ روانگی۔۔۔ بمبئی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
۔(۰۱)۔۔۔ باب اول ۔ روانگی۔۔۔ بمبئی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ عید ہرسال آتی ہے۔ اب کی عید ہر سال کی معمولی عید نہ تھی، کسی کے آستانے پر ذوقِ جبیں سائی دل کو بتیاب کیے ہوئے تھا۔ کسی کے دربار میں حاضری کا دن ایک ایک کر کے گنا جا رہا تھا۔ رمضان ختم ہوا عید آئی، انتظار کی گھڑیاں کٹیں، وعدۂ دیدار پورا ہونے کی ساعت آئی، مہجوری کے بعد حضوری، انتظار کے بعد دیدار، پیاس کے بعد سیرابی، جس کار فرمائے فطرت نے ازل سے یہ قانون رکھ دیا ہے۔ اسی نے ماہ مبارک کا خاتمہ موسم حج کے آغاز پر رکھا ہے۔
تجربات ومشاھدات (10)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی۔ الکویت
زیارت کی سعادت ***** رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ وایں سعادت بزور بازو نیست حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت سنت کی اتباع اور درود کی کثرت سے اس کی امید ہوتی ہے، حضورکی محبت ایمان کی علامت ہی نہیں اس کے لئے شرط ہے :لا يؤمن احد کم مؤمنا حتي اکون احب الیه من نفسه و من ولده ووالده والناس اجمعين۔ جس سے پکی محبت ہو تو دل میں خیال ہوتاہےتو اس کا، زبان پر ذکر ہوتا ہے تو اس کا، اور سوتے جاگتے دھیان ہوتا ہے تو اس کی طرف، اور خواب میں زیارت ہوت
تبصرات ماجدی۔۔۔(160)۔۔۔ جزیرہ سخنوراں۔۔۔ از: غلام عباس۔۔۔ تحریر: غلام عباس
(160) جزیرہ سخنوران از غلام عباس صاحب کتاب خانہ ہزار داستان نئ دہلی یہ ایک افسانہ ہے نئے اور البیلے رنگ کا، پلاٹ یورپ سے لیا ہوا لیکن قصہ اردو میں بالکل اپنایا ہوا ایک جزیرہ ہے "جزیرہ سخنوران " تمام تر شاعروں اور ان کے مداحوں سے آباد، اخلاق کی قیود سے آباد وہاں یہ سیاح صاحب اپنی ہم سفر ایک حسین خاتون کے ساتھ اتفاق سے جا پہنچتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مجلس شوری تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مجلس کے تین ارکان ہیں ایک ادھیڑ سن کے بزرگ افصح الفصحاء شاعر بے ہمتا
جب حضور آئے۔۔۔(20)۔۔۔ ہرسونیا رنگ تھا نیا روپ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
" حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ، کائنات کا اہم ترین واقعہ ہے، بحر احمر کی مضطرب لہروں سے عرب کا آفتاب زرفشاں طلوع ہوا۔ عطر بند ہواؤں کی نرم و نازک رفتار سے مس ہو کر پھوٹنا شروع ہو گئے، فرش سے عرش تک مینارہ نور سے آنکھیں خیرہ کر دیں، بحر احمر کی سرخ موجیں جھلمل جھلمل کرنے لگیں، عرب میں آفتاب نو طلوع ہوا، صحرائے اعظم کی جوش مستی میں نوا سنج ہوئی، گرم ہوائیں کھجور کے جھنڈوں میں پتوں سے مس ہو کر سارنگی بجانے لگیں، ریگ زاروں کا زرہ ذر
تبصرات ماجدی۔۔۔ (160)۔۔۔ جزیرہ سخنوران۔۔ از:غلام عباس۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
(160) جزیرہ سخنوران از غلام عباس صاحب کتاب خانہ ہزار داستان نئ دہلی یہ ایک افسانہ ہے نئے اور البیلے رنگ کا، پلاٹ یورپ سے لیا ہوا لیکن قصہ اردو میں بالکل اپنایا ہوا ایک جزیرہ ہے "جزیرہ سخنوران " تمام تر شاعروں اور ان کے مداحوں سے آباد، اخلاق کی قیود سے آباد وہاں یہ سیاح صاحب اپنی ہم سفر ایک حسین خاتون کے ساتھ اتفاق سے جا پہنچتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مجلس شوری تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مجلس کے تین ارکان ہیں ایک ادھیڑ سن کے بزرگ افصح الفصحاء شاعر بے ہمتا
محسن کتابیں۔۔۔03۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی
جاننے والے،دیوبند وخیر آبادی لاگ ڈانٹ سے واقف ہیں۔سینے پر پتھر رکھ کر اس مدرسے میں داخل ہوا۔خدا جزائے خیر دے غزالی کو،اسیرِابن سینا وباقر کو،اس نے حضرت شیخ الہند کے حلقۂ حدیث میں پہنچا دیا۔کچھ دن کشمکش میں گزرے،عجب کٹھن دن تھے،آخر میں جس کی غلامی کی سرفرازی نصیب ہوئی،تعجب سے سنیے گا،کہ تین مہینے تک اس کے مصافحے سے کراھۃً یا احتقاراً محروم رہا!ایمان و یقین کے الفاظ سے آشنا تھا،لیکن حقیقت سے بیگانہ،حق تعالی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس دولت کی سعادت میسر آئی۔اب تک مولانا محمد قاسم ؒ کے متعلق سنا تھاک
محسن کتابیں۔۔۔02۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی
اس ہوش ربائی داستان سرائی کی طوالت سے میں نے قصداً کام لیا ہے،کیونکہ اپنے ان ہی ذاتی تجربات کی بنیاد پر ،میں ان مسموم ادبی کتابوں اور رسالوں کو نوخیز بچوں اور نوجوانوں کے لئے سم قاتل قرار دیتا ہوں،جو حشراتی کیڑوں کی طرح آج آسمان و زمین سے ہر ہر گھر میں برس رہے ہیں،بچوں سے آگے بڑھ کر ،بچیوں تک کی تباہی و بربادی میں ،بے پناہ طوفانوں کاکام کر رہے ہیں،نسلیں برباد ہورہی ہیں، اور گھرانے اجڑ رہے ہیں،مگر اس شکل میں کہ ان کاغذی سانپوں اور بچھوؤںسے،ماں باپ بخوشی اپنے بچوں کوڈسا رہے ہیں،حکومت مدد کر رہی ہے
محسن کتابیں۔۔۔01۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی
مولانا سید مناظر احسن گیلانی ولادت:استھانوں(ضلع پٹنہ) جو مولانا کا ننھیال تھا۔ مورخہ۹ربیع الاول ۱۳۱۰ھ ،مطابق ۲ اکتوبر ۱۸۹۲ء عالم باعمل،فاضل بے بدل،حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی،اپنے گوناگوں کمالات اور متعدد صفات کی وجہ سے دور حاضر میں برصغیر کے ان علماء میں سے تھے،جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے،بقول مولانا دریابادیؒ:دور حاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں،بلکہ اخص الخواص میں تھے۔ آپ گیلانی (ضلع نالندہ ،بہار)کے مشہور خاندان سادات حسینیہ واسطی

محسن کتابیں 02 تحریر: مولانا عبید اللہ سندھی
اس کے بعد میری محسن کتابوں میں ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ہے،جس کے زور سے میں قرآن سمجھا،حدیث سمجھا،فقہ سمجھا۔حجۃ اللہ کو میں ایک مرکزی حیثیت سے اپنی محبوب کتاب مانتا ہوں،ورنہ شاہ صاحب کی ہر سطر میری محسن ہے۔حجۃ اللہ کے بعد شاہ صاحب کی کتابوں میں سے ’’الفوز الکبیر‘‘، فتح الرحمٰن،بدور بازغہ کی بہت زیادہ اہمیت میرے دماغ میں ہے۔ محسن کتابوں کے سلسلے میں اگر میں ان دو کتابوں کے بعد کوئی کتاب لکھوا سکتا ہوں،تو وہ مولانا شہیدؒ کی عبقات ہے،جس نے حجۃاللہ کے مقدمے کا کام دیا۔ شاہ صاحب کی تصنیفات ک

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی۔ 02-
ابتدا میں شب سے زیادہ موحش،اس کتاب کا بظاہر بے ربط اسلوب بیان رہا،لیکن اب تلاوت کرتا ہوں،تو جو چیز اس کے لفظ لفظ کو اور حرف حرف کو ’’کلام اللہ‘‘ ثابت کرتی ہے،وہ سب سے زیادہ عین یہی اسلوب بیان’’اسٹائل‘‘ہے۔کسی طرح یہ بات تصور میں نہیں آتی کہ کوئی انسان بھی ،انسانی دل ودماغ اور بشری نفسیات کے ساتھ اس طرح بہ تکلف دو چار آیات بھی بول سکتا ہے،جس طرح یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک بے تکلف ایک فوق البشری انداز بیان میں ناطق ہے۔حد یہ ہے کہ لفظی غیر لفظی کوئی ترجمہ خود اسی کتاب کا ،جب کسی دوسری زبا

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی- 01-
مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ ولادت:گدیا۔ ضلع بارہ بنکی ،یوپی مورخہ ۱۴ذی الحجہ ۱۳۰۶ ھ،مطابق ۱۱ اگست ۱۸۸۹ ء آپ بارہ بنکی کے ایک خوشحال اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد حکیم عبدالخالق صاحب اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت، اور حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے خلیفۂ مجاز تھے۔والد صاحب نے حصول علم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل کیا،ندوہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا،والد صاحب کو وہاں کی تعلیمی و تربیتی حالت سے اطمینان نہ ہواتومولانا ادریس صا

محسن کتابیں۔ قسط : 02 ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
اب دل مسلمان صوفیہ کے اقوال واحوال میں بھی لگنے لگا تھا،کشف وکرامت کے ذکر پر اب یہ نہ ہوتا کہ بے ساختہ ہنسی آجاتی،بلکہ تلاش اس قسم کے ملفوظات و منقولات کی رہنے لگی۔فارسی اور اردو کتابیں بہت سی اس سلسلے میں پڑھ ڈالیں۔مسلمان تو اب بھی نہ تھا،لیکن طغیان اور عداوت کا زور ٹوٹ چکا تھا،محسن کتابو ں کے سلسلے میں محسن شخصیتوں کا ذکر یقیناًبے محل ہے،لیکن اتنا کہے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتاکہ اس دور میں دو یا تین زندہ ہستیاں بھی ایسی تھیں جن سے طبیعت رفتہ رفتہ اور بہت تدریجی رفتار سے سہی،لیکن بہرحال اصلاحی ا

محسن کتابیں۔ قسط : 01۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ ولادت:دریاباد، ضلع بارہ بنکی،یوپی تاریخ:۱۶۔ شعبان ۱۳۰۹ ھ ،مطابق ۱۶ ۔مارچ ۱۸۹۲ ء مفسر قرآن،ادیب شہیر،مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کا تعلق دریاباد ضلع بارہ بنکی (یوپی)کے قد وائی خاندان سے تھا۔کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔اے کیا،طالب علمی ہی سے مطالعے کی عادت نہیں ،لت پڑگئی تھی۔ہر قسم کا مطالعہ کرتے۔اسی زمانہ میں تشکک وارتیاب سے لے کر الحاد ودہریت کے مرحلوں سے گزرے،پھر اللہ نے صحیح اسلام کی طرف باز گشت کی توفیق عطا فرمائی۔کالج کی زندگی ہی میں خاصی عربی سیکھ لی ت
