خاندانی رقابت کی وجہ سے بھٹکل میں بچے کا اغوا کیا گیا۔ بھٹکل والوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے: ضلع ایس پی ڈاکٹر سومن پنیکر کا بیان

11:21AM Mon 22 Aug, 2022

سوشیل میڈیا پر افواہیں پھیلانے والوں کو ایس پی نے دی وارننگ بھٹکل : 22 اگست، 2022 (بھٹکلیس نیوز بیورو) اتر کینرا ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولس (ایس پی) ڈاکٹر سومن ڈی پینیکر نے کہا ہے کہ بھٹکل میں سنیچر کی رات ہونے والے اغوا کے معاملے کے پیچھے خاندانی رقابت اور دشمنی ہے  اس لیے بھٹکل والوں کو اغوا کے اس معاملےکو لے کر اپنے بچوں کے تعلق سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کاروار میں اخباری کانفرنس میں بچے کی بازیابی کے بعد تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ بچے کے والد کے ساتھ لین دین کا معاملہ ہونے کی وجہ سے کچھ خاندانی ناچاقی چل رہی تھی اور بچے کے والد پر دباؤ بنانے کے لیے اس بچے کو اغوا کیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے کا ماسٹر مائنڈ وہ بچے کی والدہ کا ماموں ہے جو کہ اس وقت سعودی عربیہ میں موجود ہے ۔ ایس پی نے بچے کی تلاشی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ دوپہر کے وقت بچے کی گمشدگی کے متعلق رپورٹ بھٹکل پولس تھانہ میں درج ہوئی تھی جس کے بعد پولس کی پانچ ٹیمیں مختلف جگہوں پر بھیج دی گئی تھی۔ ان ٹیموں میں سے ایک ٹیم کو گوا کے کلنگوٹ  بیچ کے قریب بچہ مل گیا تھا ۔ اس تعلق سے انہوں نے بھٹکل کے ہی ایک شخص کو حراست میں لینے کی بھی خبر دی اور کہا کہ اس معاملے میں پولس مزید لوگوں کو تلاش کر رہی ہے۔ انہوں نے سوشیل میڈیا پر غلط خبریں پھیلا کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اغوا کا معاملہ خاندانی ہے اس کو دوسرا رنگ نہ دیا جا ئے ۔ ایسی حرکتیں کرنے والوں پر پولس نظر رکھے ہوئے ہے اور وقت آنے پر ان پر کارروائی بھی کی جاسکتی ہے ۔ خیال رہے کہ سنیچر کی رات قریب آٹھ بجے آزاد نگر سے ایک آٹھ سالہ بچہ لاپتہ ہوگیا تھا جس کے بعد آس پاس کے گھروں میں موجود سی سی ٹی وی فوٹیج کو کنگھالا گیا تو حیرت انگیز طور پر پتہ چلا کہ ایک  کار بچے کے گھر سے کچھ دوری پر بچے کی تاک میں کھڑی ہے اور بچے کے آتے ہی کار سے ایک شخص نکلتا ہے اور بچے کو کھینچ کر گاڑی کے اندر لے جاتا ہے  جس کے بعد گاڑی آزاد نگر فرسٹ کراس سے جالی روڈ کی طرف باہر نکلتی ہوئی فرار ہوجاتی ہے۔ ان فوٹیج کے سامنے آتے ہی بھٹکل میں سوشیل میڈیا پر تصاویر کے ساتھ ساتھ بہت سی باتیں گردش کر رہی تھیں سنیچر کی رات تک لوگ جتنی منہ اتنی باتیں کر تے ہوئے اپنے خیالات  پیش کر رہے تھے جس کے بعد اتوار کی شام تک لوگوں کا انداز ہی بدل گیا اور پیغامات بھی کم ہونے لگے ۔ سوشیل میڈیا  پر آئے پیغامات کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ ہر ایک صحافی بنا ہوا ہے اور ہر ایک اپنی طرف سے مختلف سرخیوں کے ساتھ تصاویر کو شائع کر رہا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے حادثات کے سامنے آتے ہی سوشیل میڈیا پر لوگ بے سوچے سمجھے اپنے خیالات جھاڑ دیتے ہیں۔  انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ بات میں کتنی سچائی ہے یا پھر اس بات سے کسی کو کیا تکلیف پہنچ رہی ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھا کر ذاتی دشمنیاں بھی نکالنے لگتے ہیں  ۔ بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق ایسے ایسے افراد بحث و مباحثہ میں کود پڑتے ہیں جن کا اس سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا ،  ایسے افراد کو ذرا بھی اس کی سمجھ نہیں ہوتی کہ سوشیل میڈیا ایک سمندر ہے اس  پر جو بات ڈالی جاتی ہے وہ   کہاں تک پہنچتی ہے اور اس کے کیا نقصانات خود ان کی زندگی پر اور معاشرے پر  پڑ سکتے ہیں۔ انتظامیہ اور پولس اہلکاروں کو تفتیش کے لیے جو دقتیں سوشیل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہونے سے ہوتی ہیں وہ الگ ہی رہی۔ ایسے میں بحیثیت مسلم اور ایک ذمہ دار شہر ی ہونے  کے ناتے ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ وہ کیا چیز ڈال رہا ہے  ۔ کیا اس میں کوئی سچائی بھی ہے یا پھر صرف خبر کو پہلے پہنچانے کی دوڑ میں اپنا نام ڈالنے کی بے جا کوشش کی جارہی ہے ۔یہ سب ایسی چیزیں ہیں جس سے معاشرے کو اندر ہی اندر سے نقصان پہنچتا ہے اور ہم نہ جانتے ہوئے اس میں ملوث ہوجاتے ہیں۔